اردو ادب /شعرو شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو ادب /شعرو شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 1 نومبر، 2016

حبیب جالب کے یہ اشعار آج کی عدلیہ اور انداز سیاست کو چھٹہ کھول کے رکھ دیتے ہیں: پڑھیئے

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی ، 
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی . . 

مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو ، 
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی . . 

ہم خاک نشینوں سے ہی کیوں کرتے ہیں نفرت ، 
کیا پردہ نشینوں میں غلاظت نہیں ہوتی . . 

یہ بات نئی نسل کو سمجھانی پڑے گی ، 
عریانی کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی . .

سر آنکھوں پر ہم اس کو بٹھا لیتے ہیں اکثر ،
جس کے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی . .

پہنچا ہے اگرچہ بڑا نقصان ہمیشہ ،
پھر بھی کسی بندے کی اطاعت نہیں ہوتی . .

ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے ،
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی . .

حبیب جالبؔ



اتوار، 23 اکتوبر، 2016

سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے

شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا
اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے

اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے

احمد فراز



بدھ، 15 جون، 2016

ہندو شاعرہ دیوی روپ کماری کا علی مرتضیؓ کے لئے کلام


ہندو شاعرہ دیوی روپ کماری کا علی مرتضیؓ کے لئے کلام

نثارِ مرتضٰیؓ ہوں، پنجتن سے پیار کرتی ہوں
خزاں جس پہ نہ آئے، اُس چمن سے پیار کرتی ہوں

عقیدہ مذہبِ انسانیت میں کب ضروری ہے
میں ہندو ہوں مگر اِک بت شکن سے پیار کرتی ہوں

بے دین ہوں، بے پیر ہوں
ہندو ہوں، قاتل شبیرؓ نہیں

حسینؓ اگر بھارت میں اُتارا جاتا
یوں چاند محمدؓ کا، نہ دھوکے میں مارا جاتا

نہ بازو قلم ہوتے، نہ پانی بند ہوتا
گنگا کے کنارے غازیؓ کا علم ہوتا

ہم پوجا کرتے اُس کی صبح و شام
ہندو بھاشا میں وہ بھگوان پکارا جاتا

اگر علیؓ کی ولایت کا تجھے اعتراف نہیں
تو خطائیں تیری حضورِ خدا معاف نہیں

تن پہ جامہ احرام، دل میں بغضِ علیؓ
یہ تیرے نصیب کے چکر ہیں طواف نہیں

اللہ سے اِک حرفِ جلی مانگ رہی ہوں
یزداں کی ولایت سے وَلی مانگ رہی ہوں

لو کر دیا کونین کا دیوالیہ میں نے
میں اس کے خزانے سے علیؓ مانگ رہی ہوں


جمعرات، 28 اپریل، 2016

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون، وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی




فوٹو کرٹیسی: ندیم اختر

منگل، 26 اپریل، 2016

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو : محسن نقوی

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو

گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو

کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو

اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو

یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِسناں، کوئی سرسجاؤ! اُداس لوگو

اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو
--
محسن نقوی


منگل، 9 فروری، 2016

مجھے خوف ہے یہ تہمت، مرے نام تک نہ پہنچے؛ پوری غزل پرھیں

غم عاشقی سے کہہ دو، رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت، مرے نام تک نہ پہنچے

میں نظر سے پی رہا تھا، تو یہ دل نے بددعا دی
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

وہ نوائے مضمحل کیا، نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہلِ دل کیا، جو عوام تک نہ پہنچے

مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ، یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے

جو نقابِ رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگادی
اٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے

انہیں اپنے دل کی خبریں، مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو اُن سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے

وہی اک خموش نغمہ ہے شکیل جانِ ہستی
جو زبان پر نہ آئے، جو کلام تک نہ پہنچے
(شکیل بدایونی)



مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں