گلگت بلتستان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گلگت بلتستان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 23 جولائی، 2016

پاک آرمی کا کیپٹن قیوم خان جنوبی وزیرستان میں شہیدہوگئے

گلگت (اردو وائس نیوز ڈیسک 23 جولائی 2016) جنوبی وزیرستان میں پاکستان آرمی کے کیپٹن قیوم خان شہید ہوگئے ۔ کیپٹن قیوم خان گلگت بلتستان کے گاون پرنس آباد دنیور سے تعلق رکھتے تھے اور فروری 2016 سے جنوبی وزیرستان میں وطن عزیز کی دفاع کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ قیوم خان پاک فوج 5 کمانڈو بٹالیں سے تعلق رکھتے تھے۔ شہید کی جسد خاکی کو فوجی اعزاز کے ساتھ آبی گاوں پہنچا کر سپرد خاک کیا گیا۔ آرمی چیف، 10 کور، 5 کمانڈو بٹالین ، صدر پاکستان اور دیگر اداروں کی جانب سے ان کی مزار پر پھول چڑھائے گئے۔

کیپٹن قیوم خان شہید والدین کی اکلوتے بیٹے تھے۔ قیوم کے والدین کا تعلق ہنزہ علی آباد سے تھا ، دنیور میں مقیم ہیں۔ قیم 2009 میں پاک فوج میں شامل ہوگئے تھے، 2011 میں پاسنگ آوٹ کے بعد پنجاپ رجمنٹ سیکنڈ لیفٹننٹ کے طور پر شامل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد کمانڈوز کی تربیت حاصل کرنے کے بعد 2013 میں ایس ایس جی کمانڈوز میں شامل ہوگئے تھے، جولائی 2016 میں خالق حقیقی سے جاملے۔

پیر، 27 جون، 2016

عید الفطر کے پیش نظر شندور پولوفیسٹیول کی تاریخوں میں ایک بار پھر تبدیلی، نئی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا


پشاور / چترال ( رپورٹ ابوالحسین : ٹائمز آف چترال28 جون 2016 ) دنیا کے بلند ترین پولرگراونڈ شندور میں سالانہ ہونے والے میلے شندور پولو فیسٹیول کی تاریخوں میں عید الفطر کے پیش نظر ایک بار پھر تبدیلی کردی گئی ہے۔ یہ فیصلہ پیر کے روز ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخواہ کے منیجنگ ڈائریکٹر مشتاق احمد کے ساتھ ان کے آفس میں ہونے والی میٹنگ میں کیا گیا۔ اب فیسٹیول 15 جولائی کے بجائے 22 جولائی کو شروع ہوکر 24 جولائی کو اختتام پذیر ہوگا۔ 

مشتاق احمد نے بتا یا کہ کہ شندور فیسٹیول کی تاریخوں میں تبدیلی تمام ٹیموں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عید منانے کے بعد کھلاڑیوں کو اپنے گھوڑوں کے ہمراہ گزشتہ مقرر کردہ تاریخوں میں شندور پہنچنا قدر ےمشکل تھا اور انہیں مقابلے شروع ہونے سے پہلے پریکٹس کا موقع بھی نہیں مل پاتا ہے۔ نئی تاریخوں میں وہ آسانی سے پہنچ سکیں گے اور پریکٹس کا بھی انہیں موقع ملے گا۔

میٹنگ میں ایڈمن سجاد حمید، جنرل منیجر ٹورزم انفارمیشن سنٹرز محمد علی سید، چیف پلاننگ آفیسر حیات علی شاہ اور دیگر عہدیداروں نے شرکت کی۔

حکام نے بتایا کہ شندور پولو فیسٹیول اب 22 جولائی کو شروع ہوگا اور 24 جولائی کو اختتام پذیر ہوگا۔ شندور میلہ ہر سال 7 سے 9 جولائی کو ہوا کرتا تھا لیکن اس سال عید الفطر کے پیش نظر شیڈول میں تبدیلی کردی گئی۔ 

چترال کے بلند ترین پولو گراونڈ شندور میں سالانہ منعقد ہونے والا میلہ اب ایک بین الاقوامی ایونٹ بن چکا ہے۔ دنیا بھر سے سیر و سیاحت کے شوقین لوگ میلے میں شریک ہوتے ہیں۔ فری اسٹائل پولو سے محظوظ ہوتے ہیں ۔ شندور کی ٹھنڈی ہواوں کے مزے لیتے ہیں ۔ صوبائی حکومت اپنے مالیاتی شعبے سے ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخواہ کے ذریعے ضلعی انتظامیہ کو میلے کے انتظامات کے لئے فنڈز فراہم کرتی ہے۔ ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخواہ مختلف مہمات کے ذریعے میلے کی تشہیر کرتی ہے ۔ اور میلے کے دوران سیاحوں کے لئے شندور کے مقام کے ٹینٹ ویلیجز، کھانے پینے اور دیگر اشیاء کے اسٹالز اور ٹورزم انفارمیشن مراکز قائم کرتی ہے ۔ اور ساتھ ساتھ مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے قیام و طعام کا بھی انتظام کرتی ہے۔ 

چترال ایک پر امن علاقہ ہے ۔ اس لئے ہزاروں سیاح بلا خوف و خطر ہر سال چترال آتے جاتے ہیں ۔ چترال میں سیاحوں کی آمدورفت کیلاش فیسٹیولز اور جشن شندور کے موقع پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس سال بھی توقع کی جارہی ہے کہ گزشتہ سالوں سے زیادہ مقامی اور غیر ملکی سیاح شندور میلہ دیکھنے آئیں گے۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال صوبے کے حالات پر امن ہیں اور حکومت نے غیر ملکی سیاحوں کے لئے نان ابجیکشن سرٹیفیکیٹ ( این او سی ) کی شرط بھی ختم کردی ہے۔

بدھ، 8 جون، 2016

چھٹیاں منانے #گوجال، ہنزہ جانے والے طالب علموں سمیت 4 افراد المناک حادثے میں جان بحق

گوجال، ہنزہ کار کے المناک حادثے میں جان بحق افراد کی نماز جنازہ ادا کردی گئی 


ہنزہ / اسلام آباد (ابوالحسنین: ٹائمز آف چترال) گوجال، ہنزہ گلگت بلتستان جاتے ہوئے ٹریفک کے المناک حادثے میں 3 طالب علم اور ایک پشہ ور جان بحق ہوگئے۔ مذکورہ چار افراد راولپنڈی سے کرایہ کی کار لیکر ہنزہ کے گاوں گوجال جارہے تھے کہ خیبر پختونخواہ کے کوہستان کے علاقے میں کار گہری کھائی میں گر گئی۔ حادثے میں چاروں افراد ڈرائیور سمیت جان بحق ہوگئے۔

جان بحق افراد میں این سی اے لاہور کے طالب علم سعید حسن، بحریہ یونیورسٹی اسلام میں بی ایس کی طالبہ فائزہ علی احمد جان، انٹر میڈیٹ میں پڑھنے والی اسلام آباد میں ایک کالج کی طالبہ عزیزہ فرمان علی اور پیشہ ور علی احمد جان شامل ہیں۔ فائزہ علی احمد جان کی صاحبزادی اور والی بال کی کھلاڑی تھی۔ جان بحق ہونے والے تمام افراد کا تعلق گلمت، گوجال ہنزہ سے تھا۔ رینٹ اے کار کا ڈرائیور بھی جان بحق ہوگیا جس کا تعلق مانسہرہ سے تھا۔ 

جان بحق افراد کی جسد خاکی ہنزہ لے جائے جائیں گے جہاں ان کی آج تدفین کردی جائے گی۔ 



بدھ، 25 مئی، 2016

پرنسز زہرہ اور پرنس رحیم آغا خان کا درہ پاکستان، گلگت میں 50 بسروں کے ہسپتال کا افتتاح، ہسپتال ای ہیلتھ کے ذریعے چترال کے مراکز سے منسلک ہوگا

گلگت (ابوالحسنین: اردو وائس آف پاکستان 25 مئی 2016) آغاخان ہیلتھ سروس پاکستان، پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے پیش پیش ہے۔ پاکستان کے کونے کونے میں ہیلتھ مراکز قائم کررکھے ہیں اور ان مراکز میں سندیافتہ اور ماہر ڈاکٹرز اور پشہ ور نرسز عوام کو صحت کی بہترین خدمات فراہم کررہے ہیں۔

پرنسز زہرہ اور پرنس رحیم آغا خان ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، دورے کے ابتداء میں انہوں گلگت میں 50 بسروں پر مشتمل ایک بہترین ہسپتال کا افتتاح کیا۔ اس ہسپتال میں معیاری تشخیص اور صحت کی نگہداشت کی سہولت میسر ہوگی۔ یہ مرکزایک ڈیجیٹل نیٹ ورک کے ذریعے سے سنگال، گوپیز، علی آباد، سوست اور چترال کے بونی اور گرم چشمہ کے کلنیکس سے منسلک ہوگا۔ گلگت سینٹر پاکستان کے دیگر اسٹیٹ آف دی آرٹ آخا خان ہسپتالوں بشمول آخاخان ہسپتال کرچی سے بھی ڈیجیٹیلی منسلک ہوگا۔ ’ای ہیلتھ‘ کا موجودہ دور میں صحت عامہ کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ اورای ہیلتھ کا خطے میں صحت پر مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں، بہتر تشخیص کی وجہ سے علاج میں بہتری آئی ہے۔ 

چونکہ بعض اوقات مرض کے اچانک حملے کی وجہ سے اسے بروقت بڑے ہسپتال میں لے جانا آسان نہیں ہوتا کیونکہ دشوار راستوں اور بہتری سفری سہولیتیں نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ لیکن ’ای ہیلتھ‘ کی بدولت ایک شہر یا ملک میں بیٹھ کر دوسرے ملک یا شہر میں مریض کا علاج کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اس وقت 9 ہزار کے قریب ٹیلی طبی ماہرین ہڈیوں کے فریکچر سے لیکر دل کی پیچیدہ بیماریوں تک کا میامیاب علاج کرتے ہیں۔ اس سہولت کی بدولت ہزاروں پاکستانی مریضوں نے کروڑوں روپے اور وقت کی بچت کئے ہیں۔

اب یہ سہولت گلگت میں بھی دستیاب ہوگی جو ملک کے دیگر بڑے ہسپتالوں سے منسلک ہوگا۔ چترال کا بونی ہیلتھ سینٹر اور گرم چشمہ ہیلتھ مرکز بھی منسلک ہونگے جس کی بدولت مریضوں کا علاج ان علاقوں میں ہوپائے گا۔ علاج کے لئے انہیں دور جانا نہیں پڑے گا۔ اس سروس سے غریب اور کم مراغاتیافتہ طبقے کو فائدہ پہنچے گا۔


بدھ، 17 فروری، 2016

گلگت بلتستان میں پانی کے انتظام کے لئے کوکا۔کولا اوراقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام میں معاہدہ

معاہدے کے تحت اور اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام کے تحت منصوبے پر ایک کروڑ 60 لاکھ روپے لاگت آئے گی

لاہور: (اردو وائس پاکستان نیوز)  کوکا۔کولا کمپنی نے نئی دنیا کے عنوان سے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ساتھ خصوصی پروگرام کے لئے شراکت داری کرلی ہے جس میں پانی کے بچاؤ اور ماحولیاتی تبدیلی کی جانب توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس پروگرام کے تحت کوکا۔کولا معروف این جی او ماؤنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائیزیشن (ایم جی پی او) کے ساتھ گلگت بلتستان میں پانی کے وسائل کے جامع انتظام، پینے کے صاف پانی اور نکاس کی خدمات کے لئے شراکت داری کرے گی ۔ 



اس منصوبے میں 355 ہیکٹرز اراضی کی آب پاشی، پینے کے صاف پانی تک پائیدار رسائی کے لئے 17 پوائنٹس کی تنصیب اور 4 ہزار لوگوں کے لئے نکاسی آب کی خدمات کی فراہمی شامل ہے۔ اس ضمن میں 1400 خواتین اور 500 نوجوانوں کو منصوبے کی تکمیل تک آمدن کے حصول کے ساتھ بااختیار بنانے میں معاونت کی جائے گی۔ 


یہ منصوبہ کمپنی کی کاروباری سماجی ذمہ داری کی حکمت عملی سے منسلک ہے جس کے تحت عالمی اور مقامی سطح پر پانی کے بچاؤ کی سطح میں وسعت لائی جائے گی اور 2020 تک 100 فیصد پانی فراہم کیا جائے گا۔ اس منصوبے میں شامل علاقے سکسا قصبہ ہے جہاں آمدنی کا واحد ذریعہ زراعت اور سیاحت پر منحصر ہے۔ مقامی افراد شدید سخت موسمی حالات اور دور دراز کا مقام ہونے کے باعث شدید خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ اس منصوبے پر کام کا آغاز اپریل 2016 میں شروع ہوگا جس میں آبپاشی نظام سے متعلق پائپوں اور واٹر بیڈز کی تعمیر شامل ہے۔ 


اس شراکت داری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کوکا۔کولا پاکستان اور افغانستان کے جنرل منیجر رضوان یو خان نے بتایا، " ایم جی پی او کی کوکا۔کولا پاکستان کے ساتھ شراکت داری کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کے تحت نہ صرف سکسا قصبے میں پانی کے انتظام کی خدمات فراہم کی جائیں گی بلکہ مقامی لوگوں کی شراکت کے ذریعے انفراسٹرکچر تیار کیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مقامی افراد کی زندگیوں میں سماجی و معاشی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ "


اس شراکت داری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یو این ڈی پی کے کنٹری آفس پاکستان میں پروگرام اینالسٹ عثمان منظور نے بتایا، "سول سوسائٹی کے اداروں کو 'نئی دنیا' اقدام کے تحت پاکستان بھر میں بھرپور موقع حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ منتخب شدہ مقامات پر لوگوں کے مسائل حل کرسکیں۔ ہمارا عزم ہے کہ موجودہ مسائل کے سلسلے میں جدت انگیز سہولیات کو فروغ دیا جائے اور ہمیں کافی امید ہے کہ ایم پی جی او کے ذریعے مقامی لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ " 


کوکا۔کولا اور اقوام متحدہ کی اس شراکت داری بعنوان 'نئی دنیا' کے تحت اسلام آباد اور راولپنڈی میں خواتین کے لئے الگ واش رومز اور پلے گراؤنڈز کے حالات نمایاں طور پر بہتر بناکر 100 سے زائد اسکولوں کو بحال کرچکے ہیں۔ اس پروگرام سے ایک تخمینے کے مطابق 20 ہزار طالبات اور 5 ہزار طالب علم بدستور مستفید ہوتے رہیں گے۔ 



پیر، 4 جنوری، 2016

گلگت کے نوجوان نے ایمانداری کی اعلیٰ مثال قائم کردی

گلگت بلتستان: جہاں لوگ دوسروں کی جیبیں کاٹتے ہیں گھرلوٹتے ہیں، یہاں تک لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہاں ملک کے کچھ ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں کے لوگ نہایت ایماندار ، مہمان نواز اور قدردان ہوتے ہیں۔ شمالی علاقے جہاں کئی افراد کے لیے خود دو وقت کی روٹی کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے وہاں ایک نوجوان مستری عبدلحمید نے ایمانداری کی مثال قائم کردی ہے۔ حمید نے 10 لاکھ کی خطیر رقم اس کے مالک کو واپس کرکے ایمانداری کی اعلیٰ مثال قائم کردی۔



گلگت کے رہائشی 28 سالہ عبدالحمید ورکشاپ میں کام کرتے ہیں جو کام سے فارغ ہوکر اپنے گھر کی جانب روانہ ہوئے تو اسے سڑک پر ایک لاوارث بیگ ملا جسے اس نے کھول کر دیکھا تو وہ بیگ نوٹوں سےبھرا ہوا تھا اورمجموعی طور پر 10 لاکھ کی رقم موجود تھی۔ عبدالحمید نے بیگ کے اصل مالک کی تلاش شروع کردی اور بیگ سے متعلق اپنے دوست احباب سمیت دیگر افراد کو آگاہ کیا جس کے بعد پتا چلا کہ بیگ ایک ٹرانسپورٹ کپنی کے کیشیئر کا ہے۔ عبدالحمید نے مقامی افراد کے ساتھ مل کر کمپنی کے دفتر میں اس بیگ کو اس کے اصل مالک کے حوالے کیا۔

اس موقع پر ایماندار شخص عبدلحمید کا کہنا تھا کہ میں اپنی محنت کی کمائی سے مطمئن ہوں اور اس بیگ سے رقم لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اس لیے بیگ اس کے اصل مالک کے حوالے کردیا۔

منگل، 30 جون، 2015

سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ سےبلاول بھٹو زرداری کا گہرے دکھ اور رنج کا اظہار

کراچی (ویب ڈیسک) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور پی پی پی رہنما سید مہدی شاہ کے والد کی وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے ۔ اپنے تعزیتی پیغام میں بلاول بھٹو زرداری نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام نصیب کرے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ۔ 


بدھ، 10 جون، 2015

غذر کی خواتین خودکشیاں کیوں کر رہی ہیں؟


شمائلہ جعفری
گلگت سے دو گھنٹے کی مسافت پر ضلع غذر زمین پر کسی جنت سے کم نہیں۔گہرا نیلا آسمان اور روئی کی طرح اڑتے بادلوں کے ٹکڑے، جگہ جگہ چیری، خوبانی اور آلو بخارے سے لدے درخت اور رنگ برنگے پھول۔ یہاں گرمیوں میں موسم اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ اکثر پنکھوں کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔

زرمینہ اسی علاقے کی رہنے والی ہیں۔ ان کی عمر 20 سال ہے۔ زرمینہ نے چند ماہ پہلے خود کشی کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ زرمینہ فرضی نام ہے اور خاتون کی اصل شناخت کو ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔

’مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیسے میں نے بندوق ڈھونڈی اور کیسے اس میں کارتوس ڈالے اور خود کو گولی مار لی۔ میرا دماغ ماؤف ہوگیا تھا۔ مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں ہسپتال میں تھی۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا کر دیا۔‘

زرمینہ نے بتایا کہ جب ان کے والد کاانتقال ہوا تو ان کی عمر 13 برس تھی۔گھر میں کوئی کمانے والا نہیں تھا۔ بھائی چھوٹے تھے۔ حالات ایسے ہوئے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئیں۔ ماں نے علاج کیا کروانا تھا 15 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی۔
زرمینہ نے بتایا
’میرا شوہر ہے بیروزگار سہی لیکن بہت اچھا ہے۔ میں پریشان تھی تو صرف اپنی بیماری کی وجہ سے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں سب پر بوجھ ہوں اسی لیے سوچا کہ خود کو ختم کر لوں۔‘

صرف زرمینہ ہی نہیں غذر کی خواتین میں خود کشی کی شرح غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ یہاں کی کل آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے جبکہ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق یہاں اوسطاً سالانہ 20 خواتین اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہی ہیں۔

اسرار الدین اسرار گلگت بلتستان کے لیے انسانی حقوق کمیشن کے رابطۂ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں سنہ 1999 سے خواتین میں خود کشی کا رجحان شروع ہوا۔ سنہ 2004 میں یہ عروج پر تھا۔ کچھ عرصہ اس میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن اب پھر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیسے میں نے بندوق ڈھونڈی اور کیسے اس میں کارتوس ڈالے اور خود کو گولی مار لی۔ میرا دماغ ماؤف ہوگیا تھا۔ مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں ہسپتال میں تھی۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا کر دیا؟
زرمینہ
’پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں تقریباً 52 فیصد خواتین ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس ملک سے خواتین کی خودکشی کے لگ بھگ 900 کیس رپورٹ ہوئے۔ اس تناسب سے دیکھا جائے تو ڈیڑھ لاکھ آبادی کے غذر میں سالانہ 20 خواتین کی خودکشی تشویشناک ہے۔‘

لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ حاجدہ پروین ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ خود بھی غذر کی رہنے والی ہیں۔ جب بھی ان کے علاقے میں کوئی خاتون خودکشی کرتی ہے وہ پولیس سٹیشنوں، خاتون کے رشتے داروں، محلے داروں اور عینی شاہدین سے معلومات اکٹھی کرتی ہیں۔

حاجدہ کہتی ہیں:
’اس کے کئی پہلو ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے لڑکی نے خودکشی کر لی۔ وہ ذہنی مریضہ تھی۔ ہمارے پاس گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے نفسیاتی علاج کا ادارہ موجود نہیں ہے۔ پھر بہت سی خواتین گھریلو تشدد کا شکار بھی ہیں۔ اور ایسا کوئی فورم نہیں جہاں ان کی شنوائی ہو۔ اگر وہ پولیس سٹیشن جائیں تو رسوا ہوجاتی ہیں۔‘

غذر میں خواتین میں خواندگی کی شرح گلگت اور پاکستان کے دوسرے حصوں سے زیادہ ہے۔ شعور اور سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود بھی وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیوں ہو جاتی ہیں؟

سعدیہ دانش گلگت بلتستان میں خواتین کی ترقی اور بہبود کی وزیر رہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’جب آپ کی پڑھی لکھی خاتون کی شادی کسی غیر تعلیم یافتہ شخص سے کر دیں تو ایسی صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات تو رہتے ہیں۔ غذر میں ڈپریشن بھی کافی ہے لوگ خودکشی کو بہت آسان سمجھتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی زندگی ختم کرنا ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔‘

لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سب واقعات خودکشی نہیں ہوتے بلکہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر کے اسے خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں تقریبا 52 فیصد خواتین ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس ملک سے خواتین کی خودکشی کے لگ بھگ 900 کیسوں رپورٹ ہوئے۔ اس تناسب سے دیکھا جائے تو ڈیڑھ لاکھ آبادی کے غذر میں سالانہ 20 خواتین کی خودکشی تشویشناک ہے۔

گلگت بلتستان کے لیے انسانی حقوق کمیشن کے رابطۂ کار اسرار الدین اسرار
اسرار الدین اسرار کہتے ہیں: ’اب تک ہمارے علم میں جو بات آئی ہے وہ یہ کہ ان میں سے تقریباً 20 فیصد واقعات خود کشی کے بجائے قتل ہوتے ہیں اور پولیس ان کیسوں کی تفتیش ٹھیک طریقے سے نہیں کرتی۔‘

سعدیہ دانش بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’کچھ ایسے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں بیٹیوں کو قتل کر کے دبا دیا جاتا ہے لیکن اگر قتل بیٹے نے یا خاندان کے کسی اور فرد نے کیا ہو تو اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اسے خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔‘

غذر میں خواتین کی خود کشی کے بارے میں کوئی باقاعدہ تحقیق تو موجود نہیں، پر ایک تاثر یہ ہے کہ یہاں انھیں تعلیم تو دے دی گئی ہے پر فیصلہ سازی کے اختیارات نہیں۔


بدھ، 3 جون، 2015

گلگت بلتستان کو بھی پنجاب جیسا ترقی دیں گے، ماروی میمن کا استور میں خطاب

استور( ویب ڈیسک ) وفاقی وزیر مملکت اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیر پر سن ماروی میمن نے استور کا دورہ کیا۔استور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی پر الزامات کی بارش برسادی، ان کاکہنا تھا  پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں عوام کو کرپشن اوربد عنوانی کے سوا کچھ نہیں دیا اور ہر شعبے میں میرٹ کی دھجیاں اڑا دیں۔ انہوں مزید کہا کہ غریب عوام کا بجٹ وزراء نے اپنے پروٹوکول میں لگایا گلگت بلتستان کی غر یب عوام کے ساتھ بہت زیادتی کی۔مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کو پنجاب کے برابر لے آئیگی ، جتنا کام پنجاپ میں کررہی ہے گلگت بلتستان  میں بھی کریگی ۔یہاں کی عوام مسلم لیگ(ن) کو کامیاب بنا کر دیکھیں پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کو پنجاب جیسا صوبہ نہ بنایا تو ہمارا نام بدل دیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف گلگت بلتستان کے عوام کو پسند کرتے ہیں۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنے دورہ گلگت بلتستان جو بھی اعلانات کئے تھے ان تمام کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ ۔ گلگت بلتستان میں ہماری حکومت ہو  یا نہ ہو ہم گلگت بلتستان کو ایک ماڈل صوبہ بنا دینگے ۔انھوں پی پی دور کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ گلگت بلتستان میں بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر بڑی کرپشن ہوئی ہے ۔ ہماری حکومت اب ایسا نہیں ہونے دے گی  ہم غریبوں کو ان کے حقوق دیں گے۔



ہفتہ، 9 مئی، 2015

ٹورزم ڈیولپمنٹ پنجاپ نے لاہور چیمبر آف کامرس کے تعاون سے ’’ گلگت بلتستان فیسٹیول ‘‘ کا اہتمام


لاہور ( ویب ڈیسک ) ٹورزم ڈیولپمنٹ پنجاپ نے لاہور چیمبر آف کامرس کے تعاون سے ’’ گلگت بلتستان فیسٹیول ‘‘ کا اہتمام کیا ۔  فیسٹیول میں علاقے کی دستکاری، جنگلی حیات کے نمونوں سمیت علاقے کی ثقافتی ایشیا نمائمش کے لئے رکھی گئیں۔ نمائش میں عوام نے بے حد دلچسپی لی۔ اس قسم کے فیسٹیولز سے پاکستان کے مختلف علاقوں کو ایک دوسرے کی ثقافتوں کو جاننے اور سمجھنے میں مدد ملے گی۔ عوام نے نمائش کو سراہا اور مطالبہ کیا کہ ایسے میلے ہوتے رہنا چاہئے۔





مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں