بھارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بھارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 14 اکتوبر، 2016

بھارت میں درندگی کی نئی مثال قائم کردی گئی، قبر سے مسلمان خاتون کی لاش نکال کر زنا کی گئی۔

بھارت میں درندگی کی نئی مثال قائم کردی گئی، قبر سے مسلمان خاتون کی لاش نکال کر زنا کی گئی۔


Men gang rape body of a woman after exhuming it... by myvoicetv

جمعہ، 5 اگست، 2016

انسانی سمگلنگ اور جسم فروشی سے بچ کر نکلی ایک عورت کی کہانی انھی کی زبانی۔

کرٹیسی بی بی سی اردو
میرا شوہر مجھے ایک کمرے میں لے گیا، جہاں بہت سی لڑکیاں بیٹھی تھیں، اور بولا کہ تم میرے خلاف گھریلو تشدد کا کیس کروگی، تو بیشک میں تمہیں یہاں لے آیا، اب زندگی بھر یہیں رہنا۔

٭ ’اب میں گندی لڑکی ہوگئی تھی‘

’یہ ایک کوٹھا تھا۔ میرے شوہر مجھ سے بدلہ لینے کے لیے مجھے یہاں دھوکے سے لے آیا تھا۔ میں 16 سال کی تھی جب اس سے شادی کر دی گئی، وہ بہت مار پیٹ کرتا تھا۔

میں پڑھی لکھی نہیں تھي پر ہمت کر کے واپس گھر بھاگ آئی اور اس کے خلاف گھریلو تشدد کا مقدمہ دائر کر دیا۔
یہ اسی کا بدلہ تھا۔ بنگال کے ایک گاؤں سے وہ مجھے نشے کی دوا کھلا کر پُونے کے کوٹھے میں لے آیا تھا۔

وہاں مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ روز ہر وقت روتی رہتی، یہی سوچتے ہوئے کہ کب گھر واپس جا سکوں گی۔






ایک سماجی تنظیم نے تربیت دی اور دکان شروع کرائی

اس دوران میرے اندر بہت سارا غصہ اور انصاف پانے کی ضد پیدا ہو گئی۔
پولیس نے جب چھڑایا اور پُونے سے واپس بنگال آئی تو وکیل کے پاس گئی اور کہا کہ شوہر کے خلاف انسانی سمگلنگ کا کیس کرنا ہے۔
انہوں نے بہت سارے پیسے مانگ ڈالے۔ پر میرے پاس کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ کئی بار تو کھانے کے لیے بھی نہیں ہوتا تھا۔


پھر ایک سماجی تنظیم نے تربیت دی اور دکان شروع کرائی۔
میں راشن کا سامان فروخت لگی۔ خوف کو پیچھے کر، ایک بار پھر لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت ہوئی۔
اسی ادارے کی مدد سے شوہر کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ بھی دائر کروایا۔

اپنے خاندان میں پہلی خاتون ہوں جس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر جب بیان دینے کے لیے ایک بار پھر پُونے جانا پڑا تو پھر مشکلات شروع ہوئیں۔
گاؤں والوں نے طعنے دینے شروع کر دیے۔ وہ کہتے، کہاں جاتی ہو؟ کیا کرتی ہو؟ ایک بار جہاں سے ہو آئی وہاں اب کیوں جاتی ہو؟
خاندان سے کہتے کہ اتنی بڑی لڑکی ہے، ایک بار شادی خراب ہوئی تو کیا، طلاق دلاؤ اور پھر کرا دو، گھر میں رکھنے سے شرم نہیں آتی؟
اور یہ سب سن کر میرا خاندان مجھ سے ہی جھگڑتا ہے۔ بس یہی مجھے سب برا لگتا ہے۔

میں جب اتنی کوشش کر رہی ہوں کہ سب ٹھیک ہو جائے، میری دکان چلے، اس کے بعد خاندان والے بالکل ساتھ نہیں دیتے، کہتے ہیں تم سے ہوتا ہے تو کرو، ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔
تو میں نے اب یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان جو اپنے لیے سوچتا ہے وہی سب سے اہم ہے۔
اگر میں ہی سوچوں کہ میں گندی ہوں تو سب خراب ہو جائے گا۔ پر میں نے سمجھا ہے کہ میں ٹھیک ہوں تو اب ٹھیک لگتا ہے۔



جمعرات، 28 جولائی، 2016

غریب میاں بیوی پندرہ روپے کا قرض ادا نہ کرسکنے پر قتل کردیے گئے

نئی دہلی (اردو وائس: ویب ڈیسک)  بھارتی پولیس کے مطابق ریاست اتر پردیش میں ایک میاں بیوی کو 15 روپے کا قرض بروقت ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہلاک کر دیا گیا ۔ جمعرات کو یہ میاں بیوی مزدوری کے لیے جارہے تھے کہ راستے میں ایک کریانہ اسٹور کے مالک نے انہیں پندرہ روپے قرض ادا کرنے کے لئے کہا، جس کے بعد لڑائی ہوئی اور دکان کے مالک نے کلہاڑیوں کے وار کرتے ہوئے میاں بیوی کو قتل کر دیا۔ 

ضلع مین پوری کے تفتیشی افسر ارون کمار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دکاندار کی طرف سے سوال کرنے کے بعد میاں بیوی نے کہا کہ وہ بعد میں پندرہ روپے واپس کر دیں گے لیکن دکاندار اشتعال آ کرکلہاڑی سے وار کرنا شروع کر دیا۔ ملزم  دکاندار کی عمر 61 سال کے قریب ہے اور درمیانی عمر کے میاں بیوی نے ایک ہفتہ پہلے یہ کہتے ہوئے سامان خریدا تھا کہ وہ آئندہ چند روز کے اندر اندر ہی اسے پندرہ روپے واپس کر دیں گے۔ واقعے کے بعد دکاندار کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ اس سے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔ بھارت میں عدم برداشت بڑھ گئی ہے معمولی باتوں پرشروع ہونے والی لڑائیوں کی وجہ سے سالانہ ہزاروں افراد مارے جاتے ہیں۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں نئی دہلی میں 15 فیصد قتل عدم برداشت کی وجہ سے شروع ہونے والی لڑائی سے ہوئے اور یہ قتل کرنے والے وہ عام لوگ تھے، جن کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔ بھارتی نیشنل کریمنل ریکارڈ بیورو کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں ملک بھر میں 33 ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا گیا تھا۔

پیر، 25 جولائی، 2016

بھارت میں #گائے کا پیشاب دودھ سے زیادہ فروخت ہونے لگا، 80 روپے لیٹر

نئی دہلی (این این آئی 25 جولائی 2016) بھارت میں گائے کا پیشاب دودھ سے زیاد فروخت ہونے لگا ہے، فی لیٹر پیشاب کے نرخ 80سے سو روپے ہیں، میڈیارپورٹس کے مطابق مودی حکومت نے گزشتہ دو برس میں گائے کیلئے باڑوں کی تعمیر پر پانچ ارب آٹھ کروڑ روپے خرچ کیے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں پیشاب کے استعمال سے تین مہلک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ بھارت میں دودھ کی فروخت گائے کے پیشاب کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے۔ 

بھارتی خواتین اسے اکھٹا کرنے کیلئے بہت تگ و دو کرتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ غلاظت کئی طرح کے خطرناک بیکٹیریا اور وائرس کی حامل ہے ۔سڈنی یونیورسٹی کے بھارتی پروفیسر کا کہنا تھا کہ بھارت میں تین مہلک امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں جو گائے کے پیشاب کی وجہ سے لوگوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ گائے کی غلاظت سے گھریلو سطح پر تقریباً تیس ادویات تیا ر کی جا رہی ہیں۔بھارت میں گائے کے پیشاب کا سب سے بڑا خریدار یوگا گرو بابا رام دیو ہے جو اس غلاظت سے مختلف مصنوعات تیار کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی عالمی سطح کے کارروباری گروپس کی بھارت میں تیار کردہپروڈکٹس کے بند ہونے کا خدشہ پید اہوگیا ہے۔رام دیو یورین سے تیار اپنی مصنوعات کی فروخت کیلئے یومیہ ڈیڑھ لاکھ روپے اشتہاری مہم پر خرچ کرتا ہے۔ 



بھارت میں ایک تھراپی ہیلتھ کلینک ماہانہ 25ہزار لیٹرپیشاب خریدتا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ ا س نے گزشتہ دو دہائیوں میں 12لاکھ مریضوں کا علاج اسی غلاظت سے کیا ہے جو اپنی پروڈکٹس کو یومیہ چار ہزار آن لائن مریضوں کو فروخت کرتا ہے۔بھارتی جنتا پارٹی کے لوک سبھا کے رکن سبرامینیم سوامی گائے کے تحفظ کے لئے موجودہ حکومتی کوششوں سے اتفاق نہیں کرتے، انہوں نے کہاکہ بھارت اس وقت دنیا میں گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اسی لئے بھینس کی آڑ میں لوگ گائے کو ذبح کرتے ہیں اور بھینس کا گوشت بنا کر فروخت کرتے ہیں


بدھ، 20 جولائی، 2016

کشمیر کی بولتی تصویریں: ہسپتال جانے والا شخص بھارتی فوج کو دانت کا مرض دکھاتے ہوئے

درجہ ذیل تصویر کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  ہسپتال جانے والے شخص کو بھارتی فوجی راستے میں روک  پوچھ رہا ہے کہ کہاں جارہے ہوں۔ کشمیریوں کا تو گھروں سے نکلنا بند ہے۔ کشمیری شہری ہونٹ اوپر کھینچ کر فوجی کو بیمار دانت دکھارہا ہے۔ کہ اس کے علاج کے لئے ہسپتال جارہا ہوں۔ شیم شیم بھارت



پیر، 23 مئی، 2016

ستر 70 سالہ جوڑے کے ہاں پہلی اولاد کی پیدائش ہوئی، بچہ بالکل صحت مند

بھارت ، ہریانہ ( ارد و وائس آف پاکستان ویب ڈیسک) اسے آپ جو بھی نام دیں۔ سائنس سے کچھ بھی ممکن ہے۔ 72 سالہ دالیندر کاورنے شادی کے 46 سال بعد ایک صحت مند بچے جو جنم دیا۔ بچے کا نام ارمان سنگھ رکھا گیا۔ جبکہ دالیندر 20 سال پہلے سن یاس کو پہنچی تھی۔ یہ سارا کمال ’ان۔وٹرو فرٹیلائزیشن ( آئی وی ایف۔ ٹیسٹ ٹیوب) تیکنیک کا ہے۔ اس تیکنیک میں نطفہ اور بیضے عورت کی بچہ دانی کے باہر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اس عمل سے پیدا ہونے والے بچے کو ٹیسٹ ٹیوب بی بی کہا جاجاتا ہے۔

دالیندر کے 79 سالہ شوہر، مہندر سنگھ گل اپنی بیوی کو لیکر علاج کے لئے پہلی بار 2013 میں امرتسر پنجاپ سے ہریانہ کے ہسار آئے تھے ، اور تب سے باقاعدہ طور پر کامیاب علاج کے لئے یہاں آتے رہتے ہیں۔ 2 بار آئی وی ایف کی ناکامی کے بعد تیسری بار میں دالیندر کاور حاملہ ہوگئی۔ نیشنل فرٹیلیٹی اور ٹیسٹ ٹیوب بی بی سینٹر کے مالک ڈاکٹر انوراگ رشنوئی کے مطابق خاتوں ان کے بارے میں اخبار میں پڑھ کر پہلی بار 2013 میں ان کے پاس آئی تھی۔ 70 سالہ کی عمر میں بچہ پیدا کرنے کا اس مرکز میں یہ دوسرا کیس ہے۔ اس سے قبل 2006 میں 70 سالہ راجو دیو نے بچے کو جنم دیا تھا۔ 2008 میں ایک 66 سالہ خاتون نے مذکورہ مرکز میں ٹرپلٹ کو جنم دیا تھا جن میں 2 لڑکے اور 1 لڑکی تھی۔



اتوار، 22 مئی، 2016

مانی پور میں جنگجووں نے #اسام رائفل کے 6 اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا

مانی پور، بھارت ( اُردُو وائس آف پاکستان  23 مئی 2016)  مانی پور کے چندل ضلع میں آزادی کے لئے لڑنے والے جنگجووں نے بھارتی فوج اسام رائفل کے 6 جوانوں کو مقابلے میں مار ڈالا۔ واقعہ ہفتے کو پیش آیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مرنے والے اہلکاروں کا تعلق کوئک ری ایکشن ٹیم سے تھا، لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ جگہے کے معائنے کے بعد ضلع کے جوپی بٹالین کی جانب واپس آرہے تھے کہ راستے میں انہیں جنگجووں سے مقابلے کا سامنا ہوا، تمام حملہ آور 6 فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد موقع سے بحاظت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اور فوجی اہلکاروں کے 6 ہتھیار بھی ساتھ لے گئے۔ گزشتہ سال جون میں جنگجووں نے 18 بھارتی فوجیوں کو مار دیا تھا جس کے بعد بھارتی فوج نے مذکورہ علاقے میں سرجیکل آپریشن بھی کیا تھا ج میں حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ سرجیکل اسٹرائیک میں درجنوں جنگجووں کو مارا گیا ہے۔



پیر، 9 مئی، 2016

پچاس ہزار پولیس والے مجھ پر بندوقیں ایسا تانے جیسا کہ میں اسامہ بن لادن ہوں: سنجے دت

دہلی (اردو وائس پاکستان ویب ڈیسک ) دہلی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سنجے دت نے اپنی گرفتاری، جیل کی زندگی بھارتی پولیس و جیل حکام کے برتائو کے بارے میں دل کھول کر بات کی۔

اپنی گرفتاری کے بارے میں بتایا کہ ’’جب میں بمبئی ایئر پورٹ پہنچا، اور لفٹ سے اتررہا تھا تو میں نے دیکھا کہ 50 ہزار پولیس اہلکار اپنی بندوقیں مجھ پر اس طرح تانے کھڑے ہوگئے جیسا کہ میں کوئی اسامہ بن لادن ہوں۔‘‘ سنجے نے کہا کہ 30 سال پہلے جب میں ماریشس میں فلم کی شوٹنگ پر تھا میری بہن نے فون کرکے بتایا کہ مجھ پر بندق رکھنے کا الزام لگ گیا ہے۔ میں نے کہا اچھا، واقعی میں؟؟ 

میں نے چونکہ پہلی دفعہ کوئی جرم کیا تھا، سوچا کہ پولیس مجھے جانے دیگی۔ مگر مجھے کرائم برنچ لے جایا گیا۔۔میں نہیں جانتا تھا کہ ٹاڈا (Terrorist and Disruptive Activities) کیا ہے۔ ایم سنگ اس وقت کے ممبئی پولیس کے جوائںٹ کمشنر تھے وہ آئے اور کہا کہ مجھ پر ممبئی بم دھماکوں کے الزم میں مقدمہ کیا گیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ میں اندر سے بالکل ٹوٹ سا گیا۔ اور میں نے کہا کہ آپ مجھ سے کیسے یہ توقع کرتے ہیں کہ میں اپنے شہر میں دھماکہ کروں گا؟ اپنے ہی ملک کے خلاف کام کروں گا۔۔؟ 

اُس نے کہا آئی ایم سوری: مجھے تمہیں گرفتار کرنا ہے۔


منگل، 3 مئی، 2016

ہیٹ اسٹروک سے بھارت میں 178 افراد اب تک ہلاک ہوگئے

نئی دہلی (ویب ڈیسک)  بھارت کے مختلف ریاستوں میں آج بھی لو لگنے سے 36 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یہ واقعات بھارتی ریاستوں تلنگا اور اڑیسہ میں پیش آئے ہیں۔ اب تک لو لگنے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 178 تک پہنچ گئی ہے۔ 

بھارت میں گرمی کی شدت زوروں پر ہے، سورج آگ برسا رہا ہے۔ بھارت کے مختلف راستوں میں موسم گرم شروع ہونے سے لیکر اب تک 178 افراد جان بحق ہوچکے ہیں۔






جمعہ، 29 اپریل، 2016

ایک ایسا اسکول جس میں جڑواں بچوں کے 28 جوڑے زیرتعلیم ہیں



چتور(اردو وائس پاکستان ویب ڈیسک ) کریم فورڈ انگلش میڈیم ہائی سکول کے استاتذہ کے لئے اپنے شاگردوں کے ناموں کا مسئلہ انتہائی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ جڑواں بچوں کے 28 جوڑے اس اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ شکلیں بھی ایسی ملتی جلتی کہ پہچاننا مشکل۔ جنوبی بھارت کے شہر چتور کے اس اسکول میں جڑواں بچوں کے 28 جوڑے ہیں۔ اساتذہ کو ان جڑواں بچوں کی شناخت ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جوڑواں بچوں میں زیادہ تر بھائی بھائی اور بہنیں ہیں۔


اسکول انتظامیہ کے ترجمان کا کہنا کہ جڑواں بچوں کی شکلیں اتنی ملتی جلتی ہیں کہ اساتذہ ہم شکل جڑواں بچوں سے مکمل طورپر واقف نہیں ہوپائے ہیں ، لیکن اب ہم ان کے عادی ہوچکے ہیں۔ اسکول میں 10 جوڑے لڑکیوں کے 12 جوڑے لڑکوں کے اور 6 جوڑے جڑوان بہن بھائیوں کے ہیں۔ جڑواں بچوں کی عمریں 4 سے 14 سال کے درمیان ہیں یعنی پہلی سے لے کر اسکول کی آخری جماعت تک جڑواں بچے زیر تعلیم ہیں۔


نریندر مودی کو امریکی کانگریس کی مشترکہ میٹنگ میں خطاب کی دعوت

واشنگٹن (اُرْدُوْ وائس آف پاکستان 29 اپریل 2016) بھارتی وزیر اعظم کو امریکی کانگریس کی مشترکہ میٹنگ میں خطاب کی دعوت دے دی گئ ہے۔ امریکہ ہاوس سپیکر، پال ریان نے جمعرات کو یہاں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو جون میں ہونے والی کانگریس کی مشترکہ میٹنگ میں خطاب کی دعوت دی ہے۔ 

ہاوئس آف ریپریسینٹیٹیوز کے ری پبلیکن لیڈر کاکہنا ہے کہ یہ خطاب سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے منتخب رہنما کو سننے کا خاص موقع فراہم کرے گا۔ اور ساتھ ساتھ دونوں قومیں مشترکہ اقدار کی ترقی اور خوشخالی کے لئے مشترکہ طور پرکام کریں گی۔ 


بدھ، 27 اپریل، 2016

تین وقت روٹی کمانے کے لئے شراب خانوں میں ڈانس کرنا بہتر ہے ، بھیک مانگنے سے : سپریم کورٹ


ممبئی ( اُرْدُوْ وائس آف پاکستان 27 اپریل 2016) مہاراشٹر کی حکومت کے بارز یا شراب خانوں میں ڈانس ، مجروں کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم نے کہا ہے کہ تین وقت کی روٹی کمانے نے لئے اگر خواتین بارز میں ڈانس اور مجرے کرتی ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ یہ بہتر ہے جعلی معذور بن کر بھیک مانگنے سے۔ کورٹ نے حکومت کے اس فیصلے کو بھی ہدف تنقید بنایا جس میں حکومت نے تعلیمی اداروں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے تک بارز یا شراب خانے کھولنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ 

سپریم کورٹ کا کہنا کہ ڈانس ایک پیشہ ہے، اگر یہ پیشہ بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ہو تو اپنا تقدس کھودیتا ہے۔ حکومتی اقدامت امتناعی نہیں ہونی چاہئیں۔ 


جمعرات، 21 اپریل، 2016

بے بی فارم یا (بچہ فیکٹری) کا انکشاف : 1400 ڈالر میں بچے برائے فروخت

بھارت ( اردو وائس پاکستان 21 اپریل 2016) بھارت کے ضلع گوائیلور میں ایک ایسے ہسپتال کا انکشاف ہوا ہے جو دراصل ایک بے بی فارم ہے۔ 30 بستروں پر مشتمل ہسپتال کا عملہ ایسی خواتین کو تلاش کرتا ہے جو حمل گرانا چاہتی ہیں یا ان خواتین کو جو کسی وجوہات کی بناء پر اپنے پیٹ میں پلنے والے بچوں سے چھٹکارا چاہتی ہیں۔ ہسپتال ایسی خواتین سے بچے حاصل کرتا ہے اور انہیں بے اولاد جوڑوں کو 1400 ڈالر میں فروخت کردیتا ہے۔ یہ بھیانک ’بے بی فارم‘ بھارت کے ضلع گوائیلور میں پکڑا گیا ہے۔ پولیس نے اب تک 2 فروخت شدہ بچوں کا پتہ لگا لیا ہے۔ باقیوں کی تلاش جاری ہے۔

پولیس نے بتایا، 3 دیگر بچوں کو اترپردیش اور چٹیسگڑھ میں بے اولادوں کو بیچے گئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔ ہسپتال کے منیجر ارون بھدوریا کو گرفتار کیا گیا ہے۔ منیجر نے انکشاف کیا ہے کہ ہسپتال کے ایجنٹس چمبل کے علاقے میں موجود ہیں جو ایسی خواتین کا سوراغ لگاتے ہیں جو غیر ارداری طور پر حاملہ ہونے کی وجہ سے حمل گرانا چاہتی ہوں اور ان سے معاملات طے کرتے ہیں۔ منیجر کو تحویل میں لیکر تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ اب تک ہسپتال کے 4 افراد کو انسانوں کی فروخت کے جرم میں شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ 

خواتین سے بچے پیدا ہونے کے بعد انہیں فارغ کیا جاتا اور بے اولاد جوڑوں کی تلاش کی جاتی۔ ۔۔ 


بدھ، 20 اپریل، 2016

’پاکستانی لڑکی سے عشق کی قیمت 11 سال قید‘


(بی بی سی سے )

کہا جاتا ہے کہ عشق میں پڑنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔

لیکن رام پور کے رہنے والے محمد جاوید کے وہم وگمان بھی یہ نہیں ہوگا کہ انہیں اپنی ہی ایک پاکستانی رشتے دار سے محبت کرنے کا صلہ یہ ملے گا کہ دہشت گردی کے الزام میں انھیں ایذائیں دی جائیں گی اور ساڑھے گیارہ برس جیل کی سزا کاٹنی ہوگی۔

عدالت سے بری ہونے کے دو برس بعد جاوید نے اپنی محبت کی اس غیرمعمولی آپ بیتی کو بی بی سی سے شیئر کیا۔ انھوں نے اپنے عشقیہ خطوط دکھائے اور بتایا کہ کیسے انھیں انڈین خفیہ اداروں نے اغوا کر کے ان پر تشدد کیا اور جس پیار کے لیے وہ برسوں قید میں رہے بالآخر وہ بھی نہیں ملا۔

جاوید اب 33 برس کے ہیں۔ مبینہ سے ان کی پہلی ملاقات سنہ 1999 میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنی ماں کو لے کر کراچی گئے تھے۔ جاوید کے چچا اور خاندان کے کئی دیگر افراد سنہ 1947 میں پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور انہیں لوگوں سے ملاقات کے لیے یہ رام پور سے کراچي گئے تھے۔

جاوید نے بتایا: ’ملاقات کے ایک ماہ کے اندر ہی ہم نے ایک دوسرے سے اپنے پیار کا اظہار کر دیا تھا۔ ہماری ملاقات خاندان کی ایک شادی میں ہوئي جہاں اور بھی بہت سی لڑکیاں لڑکے تھےاور شاید انہیں عدم تحفظ کا احساس ہوا۔ وہ مجھے ایک کونے میں لے گئیں اور کہا کہ چونکہ وہ مجھے سے پیار کرتی ہیں اس لیے میں کسی اور لڑکی کی طرف نہ دیکھوں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔‘

بس اس طرح کراچی میں جاوید کے ساڑھے تین ماہ کے قیام کے دوران یہ محبت پروان چڑھتی گئی۔

وہ کہتے ہیں: ’وہ گھر سے کالج جانے کا بہانہ کر کے نکلتیں اور پھر میں کالج سے باہر ان سے ملتا اور پھر ہم سفاری پارک جاتے اور وہاں بیٹھتے تھے۔‘

انڈیا واپس آنے کے بعد سے پیشے سے ٹی وی کے میکنک جاوید اپنی تنخواہ کی تمام رقم مبینہ کو فون کرنے پر خرچ کر تے جسے وہ پیار سے اب بھی گڑیا کہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’اس وقت موبائل فون نہیں تھے اس لیے میں ٹیلی فون بوتھ سے انہیں فون کیا کرتا تھا۔ یہ بہت مہنگا ہوتا تھا ان سے بات کرنے کے لیے اس وقت ایک منٹ کے لیے 62 روپے لگتے تھے۔‘

ایک برس بعد جاوید نے پھر سے دو ماہ کے لیے کراچی کا دورہ کیا۔ اب دونوں کے اہل خانہ بھی اس پیار و محبت کے چکر سے آگاہ ہو چکے تھے۔ اس رشتے پر تو کسی کو اعتراض نہیں تھا لیکن مبینہ کے اہل خانہ چاہتے تھے کہ جاوید پاکستان منتقل ہوجائیں جبکہ اس کے بر عکس جاوید کی فیملی چاہتی تھی کہ مبینہ انڈیا آجائیں۔


جاوید بتاتے ہیں کہ ان کے خطوط دس صفحات مشتمل ہوتے اور میں 12 صفحے کا جواب دیتا، اسے لکھنے میں مجھے بارہ دن لگتے تھے

جاوید کہتے ہیں: ’اس بار جب میں واپس آنے لگا تو اس نے کہا، آپ جائیے میں اپنے والدین کو قائل کر لوں گی اور دوسری بار آکر مجھے ساتھ لے کر چلنا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اب میں دوبارہ کبھی واپس نہیں آپاؤں گا اور اسے کبھی دوبارہ نہیں دیکھ پاؤں گا۔‘

اس کے بعد اگلے دو برس تک جاوید مبینہ سے فون پر رابطے میں رہے اور دونوں نے ایک دوسرے کو طویل خطوط لکھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ جاوید کو اردو زبان بہت کم آتی تھی جس میں مبینہ انہیں خطوط لکھتی تھیں اس لیے جاوید نے خط پڑھوانے کے لیے اپنے دوست مقصود کی مدد لی۔

ان کے ایک دوسرے دوست تاج محمد اردو میں تحریر کردہ خطوط کو ہندی میں ترجمہ کرتے تھے جنہیں جاوید بار بار پڑھا کرتے۔ مقصود ہی جاوید کی طرف سے اردو میں مبینہ کو جواب لکھا کرتے تھے۔

جاوید بتاتے ہیں: ‎’ان کے خطوط دس صفحات مشتمل ہوتے اور میں 12 صفحے کا جواب دیتا۔ اسے لکھنے میں مجھے بارہ دن لگتے تھے۔‘

اور پھر ایک دن اچانک پوری دنیا ہی بدل گئی۔

جاوید کہتے ہیں: ’مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے۔ یہ 10 اگست 2002 کا سنیچر کا دن تھا۔ میں اپنی دکان میں تھا جب ایک آدمی آیا اور ٹی وی درست کرنے کے لیے ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے کہا میں گھروں میں جا کر ٹی وی نہیں بناتا ہوں۔ لیکن ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ بہت پریشان ہے اس لیے میں چلنے کے لیے راضی ہوگیا۔‘

وہ دکان سے کچھ ہی میٹر دور گئے ہوں گے کہ ایک کار آئی جس کا دروازہ کھلا اور بس انھیں اغوا کر لیا گيا۔

جاوید بتاتے ہیں کہ انہیں پہلے لگا کہ شاید یہ مجرم پیشہ ور افراد ہیں لیکن پھر ان کی باتیں سن کر وہ سمجھ گئے کہ یہ پولیس اہل کار ہیں اور ان کی مشکل وہیں کار میں ہی شروع ہوگئی۔

وہ بتاتے ہیں: ’انھوں نے میرا پرس، گھڑی اور دیگر چيزيں لے لیں۔ میرے پاس مبینہ کے دو خط بھی تھے اور وہ بھی انھوں نے لے لیے۔ انہوں نے کہا اگر میں چپ نہیں رہا تو وہ مجھے شوٹ کر دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے خاندان کو بھی اغوا کر لیا گيا ہے اور دوسری کار میں ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔‘

جاوید اس بات سے غصہ ہیں کہ وہ بے قصور تھے اس کے باوجود ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا تو اس کا معاوضہ کیوں نہیں ملا اور قصورواروں کو سزا کیوں نہیں ملی

’میں رو رو کر، چیخ چلّا کر ان سے رحم کرنے کی گزارش کر رہا تھا۔‘

جاوید کے آنکھوں پر پٹّی باندھ دی گئی اور جب وہ کھولی گئی تو انہوں نے اپنے آپ ایک کمرے میں پایا جہاں اگلے تین روز تک انہیں ایذائیں دی گئیں۔

’انہوں نے مجھے بہت مارا۔ مجھے الٹا لٹکا دیتے اور میرا سر ایک پانی کے ٹب میں ڈبوتے تھے۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ جب میری یہ برداشت سے باہر ہوگيا تو میں نے ان سے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ وہ مجھے قتل کر دیں۔‘

جاوید پر پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا گیا اور پولیس نے دعوٰی کیا کہ وہ وزارت خارجہ اور دفاع کے خفیہ راز اسلام آباد کو پہنچاتے رہے ہیں۔

تین روز بعد انہیں رام پور دوبارہ واپس لایا گيا اور ان کے دوستوں مقصود، ممتاز میاں اور تاج محمد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

دوسرے دن ان افراد کو عدالت میں پیش کیا گيا اور صحافیوں کے سامنے خطرناک قسم کے دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گيا جنہوں نے بھارت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی۔

حکام کا دعوی تھا کہ جاوید نے دو بار کراچی کا دورہ آئی ایس آئی کے حکام سے ملاقات اور خفیہ راز پہنچانے کے لیے کیا تھا۔ ان پر پوٹا کے تحت مقدمہ چلا۔

جاوید کو قید تنہائی میں رکھا گیا اور بہت ایذائیں دی گئیں۔ وہ اپنے بہترین دوستوں سے جدا ہوگئے لیکن ان کے پیار کی یادیں ہی جیل کی ساتھی تھیں جن کے سہارے وہ اپنا وقت گزارتے۔

وہ کہتے ہیں: ’میں جیل میں دوسرے قیدیوں کو مبینہ کی کہانی سناتا تھا۔ کیسے مجھے پیار ہوا، اس کی عادتیں، کیسے وہ مجھے چڑاتی تھی۔ اس سے جیل میں مجھے بہت ہمت ملتی تھی۔‘

جاوید کے والدین کے لیے بھی یہ بہت مشکل وقت تھا۔ ان کی ماں افشاں بیگم تو اس کے لیے خود کو ذمہ دار مانتی ہیں۔

کہتی ہیں: ’اگر کراچی جانے کے لیے میں اس سے اصرار نہ کرتی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس مصیبت سے بچ جاتا۔‘

ان کے والد نے اپنے بیٹے کی آزادی کے لیے مقدمہ لڑا جس کے لیے انھیں اپنی زمین، جائیداد اور زیور تک فروخت کرنے پڑے۔

بالآخر 19 جنوری 2014 کو انہیں رہا کر دیا گيا اور جج نے ان پر عائد تمام الزامات سے انہیں یہ کہہ کر بری کیا کہ ان کے خلاف ثبوت نہیں ہیں۔

مکمل پوسٹ پڑھیں بی بی سی کی ویب سائیٹ پر

منگل، 19 اپریل، 2016

محبت ؛ مذہب اور ذات پات پر غالب آئی، شدید دھمکیوں کے باوجود ہندو لڑکی نے مسلمان لڑکے سے شادی کرلی

مائیسور، بھارت (رپورٹ ابوالحسنین اُرْدُوْ وائس آف پاکستان19 اپریل 2016) آشیتہ کا موجودہ نام شائستہ ہوگیا ہے۔ کیونکہ اس نے کام ہی ایسا کیا ہے۔ ہندو لڑکی آشیتہ ، ہندو انتہا پسندوں کی تمام تر شدید ترین دھمکیوں کی پروا نہ کی، اور نہ اسے گھر والوں کی طرف سے لا تعلقی کی پروا ہوئی۔ شدید مخالفت اور جان لینے کی دھمکیوں کے باوجود آشیتہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچپن کی محبت پر جان، مذہب اور خاندان قربان کردیگی۔ جی ہاں آشیتہ نے ایسا ہی کیا ، 17 اپریل 2016 کو اپنے بچپن کے دوست شکیل سے شادی کرلی۔ 

لڑکی اور لڑکے کے خاندان والوں نے دونوں کی جرات اور خلوص محبت پر شاباش دی۔ میسور کے بانی منتپ میں واقع شادی ہال میں پولیس کی سخت سیکیوریٹی میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ دونوں خاندانوں کا اس شادی پر تاثرات مثبت تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ محض ایک شادی نہیں بلکہ دو کمیونیٹیز کا ملاپ ہے۔‘‘ ۔ دونوں خاندان والے اپنے اپنے روایتی لباسوں میں ملبوس شادی شدہ جوڑے کو دعائوں کے ساتھ رخصت کرنے موجود تھے ۔ دلہن بھی اسلامی لباس میں ملبوس تھی۔ مختلف نوع کے کھانے پکائے گئے تھے۔ 

شائستہ کے والد ڈاکٹر نریندر بابو نے کہا کہ وہ بیٹی کی شادی کے لئے بہت خوش ہیں۔ اس اہم شادی کی تقریب میں نامور شعرا، اور لکھاری بشمول کے ایس بھگوان، گووری لنکش، سماجی رہنما ویمالا اور دیگر شخصیات موجود تھے۔ 2 ہزار سے زائد افراد تقریب میں شریک ہوئے۔

شائشتہ لندن سے ہیومن ریسورس میں ایم بی اے جبکہ شکیل بھارت ہی کے گاندھی نگر سے مارکیٹنگ میں ایم بی اے ہیں۔


جمعرات، 14 اپریل، 2016

نریندر مودی کو ایک بار پھر ہزیمت کا سامنا، پرنس ولیم کے ساتھ ملایا تو ولیم کا ہاتھ….

نریندر مودی کو ایک بار پھر ہزیمت کا سامنا،  پرنس ولیم کے ساتھ ملایا تو ولیم کا ہاتھ…. نریندر مودی سے ہاتھ ملانے کے بعد ولیم کے پورا ہاتھ پیلا پڑگیا ؛ تصاویر ملاحظہ کریں




ہفتہ، 2 اپریل، 2016

دارالعلوم دیوبند کا ’بھارت ماتا کی جے‘ کے خلاف فتویٰ


بشکریہ بی بی سی اردو

بھارت میں مدرسہ دارالعلوم دیوبند نے’بھارت ماتا کی جے‘ کہنے کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا ہے۔

بھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ لگانے کی بحث میں درس گاہ دارالعلوم دیوبند شامل ہوگیا ہے۔


دارالعلوم دیوبند کی جانب سے جاری کیے جانے والے فتوے میں مسلمانوں سے کہاگیا ہے کہ وہ اس نعرے سے باز رہیں کیونکہ یہ بتوں کی پوجا کے مترادف ہے جو کہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔

پی ٹی آئی کے مطابق دارالعلوم دیوبند نے کہا ہے کہ انھیں نعرے کے مسئلے کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں سوالات پوچھےگئے اور دارالعلوم دیوبندنے فتویٰ جاری کیا ہے کہ ’بھارت ماتا کی جے‘ کہنا اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا اور ایسا نہیں کہنا چاہیے۔

دارالعلوم دیوبند نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ انھیں اپنے ملک سے محبت ہے اور ہم’ ہندوستان زندہ آباد‘ جیسے نعرے لگا سکتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے شعبہ تعلقات عامہ کے افسر عشرم عثمانی کے مطابق اسلام میں اس بات کی اجازت نہیں کہ کسی ملک کی دیوئی یا بت کے طور پر نمائندگی کی جائے اور اس کی شان میں نعرے بلند کیے جائیں۔

خیال رہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ایک بیان پر تنازع پیدا ہوگیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کہ ملک میں حب الوطنی کو بڑھانے کے لیے اس نعرے کی ضرورت ہے۔

تاہم اس کے بعد مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے کہا تھا کہ انھیں اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہے لیکن وہ اپنی حب الوطنی کے اظہار کے لیے ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔

اس کے جواب میں حکمراں جماعت بی جی پی کے جنرل سیکرٹری کیلاش وجے وارگیا کا کہنا تھا کہ جو بھی ’بھارت ماتا کی جے‘ نہیں کہہ سکتا اسے بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں ریاست مہاراشٹر میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی وارث پٹھان کو بھارت ماتا کی جے بولنے سے انکار پر اسمبلی سے معطل کر دیا گیا تھا۔

جمعہ، 1 اپریل، 2016

معروف ٹیلی ویژن اداکارہ ’پراتوشا بنرجی‘ نے خود کشی کرلی




ممبئی (اردو وائس پاکستان 02 اپریل 2016) بھارت کی معروف ٹی وی اداکارہ پراتوشا پنکھے سے خود کولٹکا کر خود کشی کرلی۔ تفصیلات کے مطابق ٹی وی سیریل بلیکا ودہو میں بالغ ’اناندی‘ کے کردار سے شہرت پانے والی ’پراتوشا‘ ہفتے کو ممبئی کے کندیوالی رہائش گاہ میں اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکار کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ عزیزوں نے پنکھے سے لٹکی پراتوشا کو ہسپتال لے کر گئے مگر اس سے پہلے وہ دم توڑ چکی تھی۔

پولیس نے ہسپتال رپورٹ کے مطابق پراتوشا کے ڈیتھ کی تصدیق کردی۔ پولیس خود کشی کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیقات کررہی ہے۔ پراتوشا جھرکنڈ میں پیدا ہوئی، ان کی عمر 24 سال تھی۔ اور سال 2010-13 میں بلیکا ودھو میں کام کرتی رہی۔ 

پراتوشا کی آخری حیران کن وٹس اپ اسٹیس یہ ہے:

’’مرکے بھی منہ نہ تجھ سے موڑنا‘‘


’جے ماتا کی‘ کہنے سے انکار پر 18 سالہ مدرسہ طالب کے بازو توڑ دیئے گئے


دہلی (اردو وائس پاکستان 02 اپریل 2016)  دہلی کے بیگمپور علاقے میں ہندو انتہا پسندوں نے  مدرسے کے ایک 18 سالہ طالب علم پر شدید تشدد کرکے بازو توڑ دیئے۔ اور اس کے دو دوستوں کو بھی شدید زخمی کردیا۔ ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے لڑکوں کو بزور زبردستی  ’’ جے ماتا کی ‘‘ کہنے کو کہا مگر مدرسہ طالب علموں نے انکار کردیا جس پر انہیں تششد کا نشانہ بنایا گیا۔

واقعے کی رپورٹ کے بعد بھی ابھی تک پولیس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے، پولیس نے واقعے کے 3 روز بعد ایف آئی آر درج کی۔ 

تشدد کا نشانہ بننے والے دلکاش اور اس کے دوست اجمل اور نعیم نے بتایا کہ وہ علاقے کے ایک پارک کے قریب سے چل رہے تھے۔ ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ اس لئے شدت پسند ہندووں کا گروپ وہاں ان کے پاس آیا اور انہیں’’جے ماتا کی‘‘ کہنے کو کہا۔ انکار پر پر تشدد کیا اور بری طرح سے مارا پیٹا۔



جمعرات، 31 مارچ، 2016

بھاری بھرکم فلائی اورزمین بوس، 10 افراد موقع پر ہلاک، سینکڑوں ہلاکتوں کاخدشہ


کلکتہ (اردو وائس پاکستان 31 مارچ 2016)  کلکتہ شہر کے مصروف تجارتی ایریا میں ایک زیر تعمیر بھاری بھرکم فلائی اور گر گیا۔ جس کے نتیجے میں 10 افراد موقع پر ہلاک ہوگئے، جبکہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد  100 سے بھیکہیں زیادہ  ہوسکتی ہے۔ کیونکہ کمرشل ایریا ہونے کی وجہ سے لوگوں کا کافی زیادہ رش اس علاقے میں لگا رہتا ہے۔ حکومت نے حادثے کو بڑا نقصان قرار دے دیا ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق 150 سے زائد افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ حادثے کے بعد فوری طور پر مدد کے لئے فوج بلالی گئی۔ فائرفائٹرز اور علاقے کے رہائشی افراد کنکریٹ اور لوہوں کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنا شروع کیا ہے۔  ملبے تلے  دبے زندہ افراد مدد کے لئے چیخ رہے ہیں لوگ انہیں پانی کی بوتلیں دینے کی کوشش  بھی کر رہے ہیں۔ ویڈیو فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کہ کئی کاریں بھی ملبے تلے دب چکی ہیں۔

مرکزی کلکتہ کے معروف گنیش ٹالکیس کے قریبی بررا بازار میں 2 کلومیٹر طویل فلائی اور تعمیر ہورہا تھا کہ گرگیا۔ یہ فلائی اور سن 2009 سے زیر تعمیر تھا اور تکمیل کے کئی ڈیڈلائن مس کرچکا ہے۔



مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں