اردو کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 31 اکتوبر، 2016

سراج الحق اور عمران خان کی منزل ایک راستے فرق ہیں


بشکریہ روزنامہ پاکستان اشاعت 31 اکتوبر

امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک مکمل جمہوری جماعت کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کسی قانون وراثت یا کسی بیک چینل ڈپلومیسی سے جماعت اسلامی کی سربراہی حاصل نہیں کی ہے۔ بلکہ انہوں نے ووٹ کی طاقت سے سربراہی حا صل کی ہے۔ اس لئے انہیں ووٹ کی طاقت اور جمہوریت کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کا انداذہ ہے۔ شاید اسی لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری دنگل سے پورے ملک کے عوام پریشان ہیں اس کے حل کی چابی سپریم کورٹ کے پاس ہے ۔پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کو کسی نظریہ ضرورت کی ضرورت نہیں،سپریم کورٹ جرأت سے فیصلہ کرے ،قوم عدلیہ کے ساتھ ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکمران عوام کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں ،کبھی ایک مظلوم اور دوسرا ظالم اور پھر پہلا ظالم اور دوسرا مظلوم بن جاتا ہے اور مصنوعی لڑائی لڑکر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک ہی لٹیرا کلب کے ممبر ز ہیں ۔

سراج الحق نے سپریم کورٹ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کے حوالہ سے درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ لیکن وہ سپریم کورٹ پر چڑھائی نہیں کر رہے۔ وہ اسلام آباد پر چڑھائی نہیں کر رہے۔ وہ کرپشن کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے شہر شہر جا رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت کو کسی احتجاج کے نتیجے میں ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ سراج الحق اداروں کی کارکردگی سے خوش بھی نہیں ہیں لیکن وہ اداروں کو پامال کرنے کی مہم جوئی بھی نہیں کر رہے ہیں۔

ایک تاثر یہ ہے کہ سراج الحق میدان میں ہیں بھی اور میدان میں نہیں بھی ہیں۔ وہ موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نکالنا بھی چاہتے ہیں لیکن نکالنے کے لئے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ سپریم کورٹ میں پا نامہ کے حوالہ سے درخواست بھی دائر کر رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ کو برا بھلا بھی نہیں کہہ رہے۔ بلکہ سب کو کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح جو لوگ حکومت اور میاں نواز شریف کو رات سے پہلے گھر بھیجنے کے خواہاں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ سراج الحق سامنے آبھی نہیں رہے اور صاف چھپ بھی نہیں رہے ۔

لیکن میں سمجھ رہا ہوں کہ سراج الحق ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد کی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنے کی جدو جہد بھی کر رہے ہیں لیکن انہیں خود اقتدار میں آنے کی جلدی نہیں ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں لیکن نظام جمہوریت کو بھی بچا رہے ہیں۔

سراج الحق کی فوج کے حوالہ سے پالیسی بھی واضح ہے وہ کہتے ہیں ۔فوج کو اپنے مقاصد کیلئے سیاست میں گھسیٹنے والے ملک و قوم سے مخلص ہیں نہ فوج سے ۔پاکستان اور فوج دونوں ضروری ہیں ،اس ادارے کو سرحدوں کی حفاظت سے ہٹا کر کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال کرنے کی قوم اجازت نہیں دے گی۔میں حیران ہوں کہ سراج الحق کو سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی فوج کے حوالہ سے یہ پالیسی نہ فوج کو پسند ہے اور نہ ہی ان کو پسند ہے کہ جو فوج کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنا چاہتے ہیں۔ سراج الحق بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھو۔ لیکن ان کی کوئی نہیں سن رہا۔ نہ حکومت ان کی سن رہی ہے۔ اور نہ ہی وہ جو حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے ہر حد سے گزر جانے کے لئے بے تاب ہیں۔

سراج الحق کا دعویٰ ہے کہ ملک کو دیانتدار قیادت صرف جماعت اسلامی دے سکتی ہے ۔اگر میں ملک سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے نکلا ہوں تو میرے دائیں بائیں کوئی آف شور کمپنی کا مالک ،شوگر مافیا کا ڈان ،قرضے ہڑپ کرنے والا یا سمگلر نہیں قوم سے اپنی امانت ودیانت کا لوہا منوانے والے کھڑے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مغرب اور امریکہ کے ذہنی غلام مسجد و محراب اور قرآن و سنت کے احکامات کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جبکہ ملک کے اسی فیصد عوام ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔

سراج الحق اور عمران خان ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ لیکن ان کے لہجے اور انداز میں فرق ہے۔ دونوں کی سیاست کا محور کرپشن ہے۔ دونوں پانامہ میں میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ لیکن فرق صاف ظاہر ہے۔ایک ہوش قائم رکھنے کی بات کر رہا ہے۔ دوسرا جوش میں سب کچھ تباہ کرنے کا پیغام دے رہا ہے۔ لیکن شاید ہمارے ملک میں سلطان راہی سٹائل پسند کیا جا تا ہے۔ لوگ ایسے ہیرو کو پسند کرتے ہیں جو سب کچھ نیست و نابود کر دے۔

میں کنفیوژ ہوں کہ سراج الحق سپریم کورٹ پر یقین رکھنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان سپریم کورٹ سے بالا بالا ہی گیم کو ختم کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ سراج الحق گیم کو پانامہ تک محدود رکھنے کی بات کر رہے ہیں عمران خان اسی میں سکیورٹی مسائل کو بھی ڈال رہے ہیں۔ وہ فوج کو اپنے ساتھ نتھی کر رہے ہیں۔ سراج الحق فوج سے فاصلہ برقرار رکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ فرق شاید ابھی سیاسی شعور کے لئے مشکل ہے۔ عوام کو یہ فرق سمجھ نہیں آرہا۔ لیکن سراج الحق کا راستہ مشکل تو ہے لیکن صحیح راستہ یہی ہے۔ اور انہیں فخر ہونا چاہئے کہ وہ صحیح راستہ پر چل رہے ہیں۔

پیر، 18 جولائی، 2016

شرم و حیا سے فحاشی و عریانی تک (آخری قسط) اوریا مقبول جان

صابن اور سگریٹ کے یہ اشتہار جن میں عریانیت محض نام کو تھی لیکن چونکہ مغربی معاشرہ اس کا بالکل عادی نہ تھا‘ اس لیے شروع شروع میں انھیں حیرت اور لطف دونوں کے ملے جلے جذبات سے دیکھا گیا چونکہ یہ دونوں اشتہار اس چیز یعنی ’’پراڈکٹ‘‘ پر چسپاں تھے جیسے صابن جس کاغذ میں لپٹا ہوا تھا اس پر یہ تصویر نمایاں تھی اور سگریٹ کی ڈبیا میں وہ کارڈ رکھے ہوئے تھے، اس لیے یہ دونوں اشتہار گھروں کی معمولات کا حصہ بن گئے اور ساتھ ساتھ وہ تصویریں بھی کاروباری زبان میں ’’ہاؤس ہولڈ آئٹم‘‘ بن گئیں۔

یوں ایک زمانے میں جس طرح کی تصویروں کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی تھیں۔ لیکن اب صابن کا کور اتارتے یا سگریٹ کا پیکٹ کھولتے کوئی ان پر نظر بھی نہ ڈالتا تھا۔ عریانی کے بارے میں جب یہ پہلا بندھن توڑا گیا تو وہ لوگ جو اپنا مال بیچنے کے لیے عورت کو ایک ’’پراڈکٹ‘‘ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے انھیں مکمل یقین ہو گیا کہ حساسیت کو آہستہ آہستہ ختم کرتے ہوئے ہم معاشرے کو اس نہج پر لے آئیں گے کہ اگر جسم پر چند چیتھڑے ہی موجود ہوں تو اسے لوگ عریانی تصور نہیں کریں گے بلکہ اس کی ابتدائی شکل ہی مکمل ننگا پن ہو گا۔

یہی وہ دور تھا جب اٹلی کی ایک مشہور کپڑے بنانے والی کمپنی نے 1905ء کے آس پاس بہت شہرت حاصل کی۔ اس کا آرٹ ڈائریکٹر آلیورو ٹوسکانی Oleviero Toscani نے دنیا بھر کی ماڈلز کو پہلے اپنے ملبوسات پہنا کر اشتہارات تیار کیے جس کی وجہ سے اس کی مصنوعات کو عالمی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ ان کے جسموں سے لباس سرکانا شروع کیے۔ چونکہ ماڈلز ہر رنگ، نسل اور علاقے سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے ہر علاقے کے لوگوں کی اپنی پسند و ناپسند کے معیارات تھے، یہی وجہ ہے کہ اس کمپنی کی مصنوعات کے بہانے وہ اپنی منظور نظر خواتین کے جسموں کی نمائش دیکھتے تھے اور کمپنی کا مال بکتا تھا۔ خواتین کے جسم کو مال فروخت کرنے کے لیے استعمال کی عالمی سطح پر یہ پہلی منظم کوشش تھی۔

جب اس طرح عریانی سے مال بکنے لگا اور آہستہ آہستہ لوگ بھی اس عریانی کے عادی ہوتے چلے گئے تو پھر انھیں نہ سینے سے سرکتے ہوئے ملبوس برے لگے اور نہ ہی برہنہ ٹانگیں، بلکہ لباس کی تراش خراش ایسی رکھی جاتی کہ دیکھنے والے کا تجسس مزید بڑھ جاتا‘ اس کے بعد اس کو ایک مکمل سائنس کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ ایک علم بن گیا جسے آج مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کہتے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھایا جانے لگا۔ لاکھوں لوگوں کا کاروبار اس سے وابستہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں پینتالیس ہزار کارپوریشنیں ہیں۔

یہ مختلف قسم کی مصنوعات بناتی ہیں۔ سیمنٹ، سریا، ٹائر، کار، ٹیلی ویژن، ٹوتھ پیسٹ، شیو کا سامان وغیرہ، یعنی ضروریات زندگی کی ہر چیز۔ ان تمام مصنوعات کو بیچنے کے لیے اشتہار ساز کمپنیوں کی الگ ایک دنیا ہے۔ یہ کمپنیاں لوگوں کے مزاج کے مطابق اشتہار بناتی ہیں۔ لیکن ان کمپنیوں نے ایک غیر محسوس طریقے سے لوگوں کو اس بات کا عادی کر دیا کہ چیز کوئی بھی بیچنی ہو، عورت کو بازار میں لا کر ضرور کھڑا کیا جائے۔ ایک بہت مشہور ٹائر کی کمپنی کا اشتہار 1950ء کے آس پاس شایع ہوا، جس میں دور تک جاتی کول تار کی چمکدار سڑک پر ٹائر درمیان میں کھڑا ہے اور اس پر ہاتھ رکھے مارلن منرو، ایک ڈھیلا سا فراک پہنے ہوئے چوکڑی مارکر بیٹھی ہے۔ مال بیچنے کے لیے عورت کا استعمال، انسانی ذلت اور ذہنی پستی کی اس سے بری اور کیا علامت ہو سکتی ہے۔ یہ علم ایک سائنس بنا تو اس بات پر تحقیقات کا دروازہ کھل گیا کہ معاشرے میں کس حد تک عریانیت دکھائی جائے تو قابل قبول ہو گی اور پھر آہستہ آہستہ ’’خوراک‘‘ میں اضافہ کر دیا جاتا‘ جیسے نشے کی خوراک میں کیا جاتا ہے۔

مارکیٹنگ کی تعلیم میں ایک تحقیق کے بہت حوالے دیے جاتے ہیں۔ یہ تحقیق گیلپ اینڈ روبنسن Gallup & Robinson نے گزشتہ پچاس سال کے اشتہاری ماضی پر کی تھی۔ ان کے نزدیک سب سے کامیاب اشتہار وہ رہے جن میں عورت کے جسم کو نمایاں کیا گیا۔ جس کے لیے انھوں نے مشہور لفظ EROTIC استعمال کیا۔ جس کا مطلب تصویر کا ایسا استعمال ہے جس سے جنسی طلب میں اضافہ ہو۔ لیکن انھوں نے اشتہارات بنانے والوں کو متنبہ بھی کیا کہ جہاں کہیں کسی معاشرے میں اپنی حدود سے آگے نکلو گے تو اس کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ لوگوں کے جذبات بھی بھڑک سکتے ہیں۔ کبھی بھی لوگوں کی حساسیت کے مخالف اشتہارات میں عریانیت کی زیادتی (Over Dose) نہ کرنا، البتہ ایک بات اس تحقیق اور اس سے متعلقہ ہزاروں تحقیقوں نے بتائی کہ ’’جنسیت بکتی ہے‘‘ یہیں سے ”Sex Sells” کا نعرہ مستانہ گونجا۔

اب کیسے بیچنا ہے، کس طرح بیچنا ہے، کیسے لوگوں کو اس کا عادی کرنا ہے، یہ سب اس قدر، منظم اور شاندار طریقے سے کیا گیا کہ اب ایسے معاشرے وجود میں آ گئے کہ جہاں مکمل عریانیت پر بھی لوگوں کو حیرانی نہیں ہوتی۔ دنیا کے ہر ’’تہذیب یافتہ‘‘ ملک میں سمندر کے ایسے ساحل موجود ہیں جنھیں ’’بے لباس ساحل‘‘ (Nude Beaches) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک دن میں وجود میں نہیں آ گئے۔ ان کے پیچھے تقریباً ایک صدی کی محنت ہے۔ ان کے پیچھے صرف اشتہارات کی دنیا نہیں بلکہ پوری فیشن انڈسٹری ہے جو عورت کو زینت بازار بنانے اور پرکشش بنا کر پیش کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ فلم اور ٹیلی ویژن کا ایک وسیع دائرہ ہے جو لوگوں میں طرز زندگی اور لائف اسٹائل کو متعارف کرواتا ہے۔ پہلے ہیرو اور ہیروئن زبردست کہانی اور اداکاری کے حوالے سے دلوں کی دھڑکن بنتے ہیں اور پھر ان کا طرز زندگی لوگوں کے لیے آئیڈیل ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی ایک منظم طریقے سے آہستہ آہستہ جنسیت کو متعارف کروایا گیا۔

فلموں میں یہ پابندی نہیں تھی کہ تم کیسی فلم بناؤ گے۔ تمہیں ہر طرح کی آزادی ہے لیکن ہم ہر فلم کو Rate کریں گے یعنی ہم بتائیں گے کہ کس عمر کے لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ اس ریٹنگ کو PG ریٹنگ کہا جاتا ہے یعنی ”Parent Guidence” یعنی والدین کی ہدایت کے لیے کہ وہ بچوں کو اور کس عمر کے بچوں کو اس سے دور رکھیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جو فلمیں PG18 یعنی اٹھارہ سال سے زیادہ کی عمر کے بچوں کے دیکھنے کے لیے تھیں، اب وہ PG13 یعنی تیرہ سال کی عمر والوں کو دیکھنے کے لیے میسر ہیں۔ ان میں مناظر ہوتے ہیں۔

اندازہ کیجیے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں جب ایک معمولی سا بوسہ بھی لوگوں میں ناراضی کے جذبات پیدا کر دیتا تھا اب PG18 میں وہ فلمیں شامل ہو چکی ہیں جن میں سیکس دکھائے جاتے ہیں۔ ان فلموں کے علاوہ نوے ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی انڈسٹری ہے جسے فحش فلموں کا کاروبار کہتے ہیں۔ وہاں کی حساسیت دیکھیے کہ 1904ء میں پہلی فحش فلم بیونس آئرس میں بنائی گئی۔ یعنی ابھی ایڈیسن کو موشن پیکچر ایجاد کیے صرف چودہ سال ہوئے تھے۔ یہ فلم ایک نیم فحش بلکہ آج کے دور کے مطابق نارمل فحش بھی نہ تھی۔ لیکن 1915ء میں جب دوسری فلم آئی تو دیکھنے والوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ سینما گھروں پر پابندی تھی کہ یہاں صرف مرد یہاں آ سکتے ہیں۔

آپ حیران ہوں گے آج بھی دنیا بھر میں جہاں جہاں فحش فلموں کے سینما گھر ہیں وہاں دیکھنے والوں کی ننانوے فیصد تعداد صرف مردوں کی ہوتی ہے۔ پانچ سال تک یہی فلم دیکھی جاتی رہی اور لوگ پھر اس طرح کی فحاشی اور عریانی کے عادی ہو گئے۔ اس کے بعد 1920ء میں تو جیسے بند ٹوٹ گیا۔ اور آج تقریباً ایک صدی کے بعد انسان کی ہوس، حرص اور طلب اس قدر بڑھی کہ جانور سے اختلاط، رشتوں کا عدم احترام جیسے موضوعات ان فلموں کا حصہ بن گئے۔

مین اسٹریم میڈیا کا یہ کمال ہے کہ وہ آہستہ آہستہ آپ کو تھوڑی سی فحاشی پر عادی کرتا ہے۔ آج سے دس سال پہلے جس لباس میں کرینہ یا قطرینہ آئٹم گانے پر رقص کرتی تھیں وہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ لوگ بچوں کے سامنے اسے فاسٹ فاورڈ کر دیتے تھے۔ لیکن آج وہ عین خبروں کے بیچ میں دکھایا جاتا ہے اور کسی کو حیرانی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس ’’مولوی‘‘ کی آنکھوں میں جنس بھری ہوئی ہے۔

ہمیں تو کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ اسے کہتے ہیں Desensitize ہونا۔ یعنی آپ کی حساسیت ختم ہو جاتی ہے لیکن جو جانتے ہیں کہ اگر یہ کھیل شروع ہو گیا تو پھر یہ کہیں نہیں رکے گا۔ عریانیت اسے اپنی آخری منزل تک لے جائے گی۔ اسی لیے وہ اسے آغاز میں ہی روکنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ گاڑی اس پٹڑی پر نہ چڑھے ورنہ بہت تیز رفتار ہو جائے گی۔ شرم و حیاء سے عریانی و فحاشی کا سفر بہت تیز بلکہ تیز تریں ہوتا ہے۔ شرم و حیاء ختم ہوئی تو سید الانبیاء کی حدیث کے مصداق ’’جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے‘‘ (صحیح بخاری)

کرٹیسی ایکسپریس: اصل سورس میں پڑھنے کے لئے ایکسپریس پر کلک کریں

شرم و حیا سے فحاشی و عریانی تک : اوریا مقبول جان (پہلی قسط)

دنیا کا ہر معاشرہ اپنی پسند و ناپسند کا ایک معیار رکھتا ہے اور اس معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ اس کی حساسیت معاشرے کے افراد کی علامت بن جاتی ہے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ایک جذبہ ایسا ہے جو اس قدر حساس ہے کہ نفسیات دان اسے ا نسانی جبلت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ جذبہ حیاء، شرم، حجاب اور ستر ہے۔

تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس جذبے نے نشوونما پائی اور پھر یہ انسان اور جانور کے درمیان فرق کی بنیادی علامت بن گیا۔ حضرت آدم اور حوا کا قصہ دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہے۔ اس قصے کے مطابق دونوں جنت میں لباس میں موجود تھے۔ لیکن جب ان سے وہ غلطی سرزد ہوئی تو ان کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے ستر چھپانے لگے۔ یعنی حیا وہ پہلا عمل تھا جو انسانی جبلت میں شامل ہوا۔ بشریات Anthropology ایک ایسا علم ہے جو انسان کی ارتقائی منازل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔

آج بھی ایمزان کے جنگلوں میں ابتدائی تہذیب کی وہ بستیاں موجود ہیں۔ مارگریٹ میڈ (Margaret Mead) وہ خاتون ہے جو ان معدوم ہوتی بستیوں کا مطالعہ کرنے والی اہم ترین ماہر بشریات سمجھی جاتی ہے، بلکہ یہ علم بہت حد تک اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اس نے جنگلوں، بیابانوں اور دور دراز پہاڑی وادیوں میں ایسے انسانی معاشروں کو دریافت کیا جن تک جدید تہذیب کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔ اس کے نزدیک بھی ان معاشروں میں جہاں صرف بنیادی جبلتیں یعنی کھانا، سونا اور جنس اہم تھیں، وہاں بھی مکمل عریانی کہیں موجود نہ تھی بلکہ ستر اور حیا کا ایک معیار ضرور موجود تھا خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ قرآن اس تہذیبی ارتقاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتا ہے ’’انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا اور ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والابن جائے یا کفر کرنے والا‘‘۔(الدھر 1,2,3)۔ راستہ دراصل ہدایت کا راستہ ہے جو دنیا کو آسمانی مذاہب نے دکھایا۔ یہیں سے انسانی تہذیب کا ارتقاء شروع ہوا اور ہم نے سیکھا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، ایمانداری اور دھوکہ و فریب کسے کہتے ہیں، عہد کی پاسداری اور بدعہدی کیا ہوتی ہے۔

ان اقدار سے بھی بالاتر ایک خاندانی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب نے استوار کیں۔ ماں کا تقدس کیا ہے، بہن اور بھائی کے رشتے کی کیا حدود و قیود ہیں، میاں بیوی کس اہم ذمے داری یعنی ایک لاچار و مجبور بچے کی پرورش، تربیت اور دیکھ بھال کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور اس ذمے داری کو نباہنے کے لیے ان میں جذبہ محبت اور مادری و پدری جذبات کو جبلت کا حصہ بنا دیا گیا۔ انسان کو ان تمام رشتوں کی تعظیم اور احترام سکھانے کے ساتھ ساتھ ہر مذہب نے ایک جذبے کو تہذیب کا حصہ بتایا اور وہ تھا ستر، شرم، حیاء، حجاب اور پاکیزگی۔ اس بنیادی جذبے کی بنیاد پر انسانی رشتوں کی عمارت تعمیر ہوئی۔ انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے شرم و حیا اور ستر و حجاب کے تصور کو تار تار کر کے عریانیت و فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو زوال نے اس کے دروازے پر دستک دے دی، روم، یونان، مصر، بابل اور ہندوستان کی تہذیبوں کے زوال کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو ان کی تہہ میں عریانی و فحاشی کی وہ حیران کن لہر موجزن نظر آئے گی جو ان تہذیبوں میں سرائیت کر گئی اور پھر وہ کبھی بام عروج کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔

فحاشی و عریانی سے وابستہ ایک حساسیت سے جو دنیا کے ہر معاشرے میں پا ئی جاتی ہے، دنیا کے ہر معاشرے نے اس کے لیے عورت اور مرد دونوں کے لیے معیارات مقرر کیئے ہیں۔ یہ حساسیت اس قدر شدید اور ذہنوں میں جبلت کی طرح راسخ ہے کہ اچانک ذرا سی بے لباسی بھی معیوب اور بری محسوس ہونے لگتی ہے۔ بے لباس یاستر نمایاں ہوتے ہی وہ شخص شرم و حیا سے ڈوب جاتا ہے اور اس کے چہرے پر اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ انسان میں صرف چند جذبے ایسے ہیں جن کا اظہار چہروں پر شدت سے ہوتا ہے۔ دکھ میں ہم روتے ہیں، خوشی میں ہم ہنستے ہیں، غصے میں ہم لال پیلے ہو جاتے ہیں اور شرم میں ہمارے چہرے پر ایک شرمندگی والی لالی پھیل جاتی ہے جسے انگریزی میں blush کرنا کہتے ہیں۔

یہ شرمندگی سے پھیلنے والی سرخی یا لالی ہی ہے جسے حیا و شرم کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی تہذیب کے ارتقاء کا حسن ہے۔ دنیا کے کسی بھی جانور میں شرم و حیا اور ستر و حجاب کے جذبات شامل نہیں ہوتے۔ دکھ خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے جانوروں میں ملتے ہیں لیکن عریانی و فحاشی کے معاملے میں جانور جذبوں سے عاری ہیں۔ حیاء، شرم ا ور ستر و حجاب صرف اور صرف انسانی جذبہ ہے اور یہ جانور اور ا نسان میں فرق کرتا ہے اور انسانی تہذیب کی سب سے بڑی علامت ہے ۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کو سابقہ انبیاء کرام کی جو باتیں ملی ہیں ان میں اہم یہ ہے کہ جب تم میں حیا ختم ہو جائے تو پھر تم جو چاہو کرو۔‘‘ (سنن ابن داؤد)۔ پھر فرمایا: ’’ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف رہا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔

(سنن ابن ماجہ) ۔ خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔ یعنی فساد کی جڑ بھی حیا کی عدم موجودگی کو بتایا۔ خوبصورتی اور بدصورتی کے معیارات بتاتے ہوئے کہا ’’بے حیائی جس چیز میں ہو گی اسے عیب دار بنا دے گی جب کہ حیا جس چیز میں ہو گی اسے خوبصورت بنا دے گی۔ (سنن اترمذی)

حیا و شرم کے مقابل فحاشی و عریانی ہوتی ہے۔ حیا و شرم ایک ایسی معاشرتی صفت ہے جس کے ساتھ ایک حساسیت وابستہ ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں فحاشی و عریانی ایک دم نہیں پھیلتی۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے معاشرتی رد عمل اس قدر شدید ہوتا ہے کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ لوگوں کو آہستہ آہستہ فحاشی کی جانب مائل کیا جاتا ہے۔ نفسیات دان جدید دنیا میں ایک بہت بڑے طریق علاج کو اختیار کیے ہوئے ہیں جسے Desensatization یعنی حساسیت کو کم کرنا کہتے ہیں۔ ہر شخص جو کسی بھی معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو اس کو مختلف طریقوں اور مشقوں سے آہستہ سے اس کے قریب کیا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ بالکل حساسیت سے عاری ہو جاتا ہے۔

مثلاً کوئی شخص خرگوشوں سے ڈرتا ہے تو پہلے ایک شیشے کے پیچھے نقلی خرگوش رکھ کر اس کے سامنے اس کا پسندیدہ کھانا رکھا جاتاہے، وہ آہستہ آہستہ ان کی موجودگی میں کھانے لگتا ہے، پھر نقلی کی جگہ اصلی خرگوش لائے جاتے ہیں۔ مدتوں اس طرح اسے عادی کیا جاتا ہے، پھر شیشہ ہٹا دیا جاتا ہے اور بالآخر وہ خرگوشوں کو چھونے بھی لگ جاتا ہے۔ فحاشی و عریانی بھی دو طرح کے خوف کی وجہ سے انسان اختیار نہیں کرتا، ایک معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی خوف کہ ایسا کرنے سے وہ ذلیل و رسوا ہو جائے گا اور دوسرا مذاہب کا بنایا ہوا آخرت کا خوف، یہ دونوں خوف انسان کو فحاشی و عریانی سے دور رکھتے ہیں اور حیا، شرم، ستر، حجاب سے محبت سکھاتے ہیں۔

جدید تہذیب کے میڈیا نے نفسیات کے اس بنیادی طریق کار کو فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کے لیے اس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے کہ ہر معاشرے میں درجہ بدرجہ، آہستہ آہستہ فحاشی و عریانی کو عام کیا اور پھر معاشروں پر ایک ایسا وقت آیا کہ انھیں اسے دیکھنے، یا اختیار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی، حیا و شرم کو کبھی بھی ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسے آہستہ آہستہ بے شرمی و بے حیائی کے مظاہر سے موت تک پہنچایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی تہذیبوں کا زوال ایسے ہی آیا۔ جدید تہذیب میں ابتدائی فحاشی و عریانی کے وہ مظاہر جو عام پبلک کے لیے تھے وہ 1871ء میں شروع ہوئے۔ اس سے پہلے آرٹسٹ عریاں تصاویر بھی بناتے تھے اور مجسمے بھی لیکن ان کو دیکھنے والوں کی تعداد محدود ہوتی تھی اور عریاں تصاویر و مجسمے بھی اتنے زیادہ نہ تھے۔ لیکن جدید تہذیب کی عریانیت سب سے پہلے کاروباری اور اشتہاری مقاصد کے لیے اختیار کی گئی۔

1871ء میں امریکی کمپنی نے اپنے تمباکو کے پیکٹوں میں کچھ ٹریڈنگ کارڈ رکھے جن پر نیم عریاں جنسی مشاغل کی تصویریں تھیں اور اس طرح 1890ء میں یہ امریکا کا سب سے زیادہ بکنے والا سگریٹ برانڈ بن گیا۔ اس سے پہلے کسی سیلون، شربت اور تمباکو کے اشتہارات لکڑی میں مجسمہ نما کاٹے جاتے تھے اور لکڑی میں جسم کے ابھار ایسے دکھائے جاتے تھے کہ خاتون کے اوپر کا حصہ عریاں محسوس ہو۔ یہ مجسمے دکانوں کے باہر آویزاں ہوتے تھے چونکہ یہ ایک مجسمہ قسم کی چیز تھی اس لیے لوگوں نے اسے اس طرح عریانیت کے طور پر نہ لیا لیکن ان لکڑی کے مجسمہ نما اشتہاروں کی وجہ سے عریانیت کے بارے میں حساسیت کم ہو گئی اور جب سگریٹ کے اس پیک میں نیم عریاں تصاویر آئیں تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی۔ 1911ء کے آس پاس صابن کی کھپت کو بڑھانے کے لیے اسی عریانیت کا سہارا لیا گیا جس کے لوگ ابھی تھوڑے تھوڑے عادی ہو گئے تھے

۔ ایک امریکی کمپنی نےFacial soap کے اشتہار میں ایک خوبصورت خاتون کی گردن سے تھوڑا سا نیچے لباس کو ڈھلکایا، اس کی گردن کے پیچھے سے ایک آدمی کا آدھا جھانکتا ہوا سر دکھایا، ایسے جیسے وہ جسم کی خوشبو سونگھ رہا ہو اور اس عورت کو ہاتھوں کی نرماہٹ کے ساتھ مرد کو پکڑے ہوئے دکھایا گیا اور اشتہار پر لکھا تھا ’’A Skin You Love to Touch‘‘ (ایسی جلد جسے آپ چھونا پسند کریں)۔ بس پھر کیا تھا، لوگ جن کی فحاشی کے بارے میں حساسیت پہلے سے کم ہو گئی تھی انھوں نے اسے اتنا پسند کیا کہ ووڈبری کے خواتین کے حسن کے مراکز Beauty Bars دوبارہ کھل گئے۔ عورتیں اپنی جلد کی نرماہٹ میں مگن ہو گئیں اور مردوں کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ کتنے بڑے معاشرتی بندھن کو توڑ چکے ہیں۔

(جاری ہے)  

کرٹیسی ایکسپریس: اصل سورس میں پڑھنے کے لئے ایکسپریس پر کلک کریں

سرکس کے مسخرے۔۔۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور تو اپنے ان ہی آقاؤں کے نقش قدم پر چل رہے : اوریا مقبول جان

کرٹیسی ایکسپریس

سرکس کے کرداروں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ماہر اور مشاق فنکار جو رسے پر چلتا ہے، قلابازیاں لگاتا ہے، دونوں ہاتھوں سے کس قدر مہارت سے گیندوں کو اچھالتا ہے، غرض طرح طرح کے ماہرانہ کرتب دکھا کر داد وصول کرتا ہے اور تالیوں کی گونج میں رخصت ہوتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد عجیب و غریب لباس، پھندنے والی ٹوپی اور چہرے پر چونے سے نقش و نگار بنائے ہوئے ایک مسخرہ داخل ہوتا ہے اور وہی سارے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسی پکڑ کر جھولنے لگتا ہے تو دھڑام سے زمین پر گر جاتا ہے، گیند اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور قلابازیاں وہ اس مضحکہ خیز انداز میں لگاتا ہے کہ پورا پنڈال ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہوتا ہے۔

ایک اپنی مہارت کی داد وصول کرتا ہے تو دوسرا اپنے مسخراپن کی۔ دونوں کی اپنی اپنی دنیا اور اپنی اپنی حیثیت ہے۔ لیکن سرکس کے مسخرے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔ اس میں وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں۔ اس لیے وہ ہیرو والی داد نہیں چاہتا بلکہ مسخرے والی داد پر خوش ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب ترکی میں طیب اردگان کی حکومت کے خلاف فوج کے ایک مختصر ٹولے نے بغاوت کی کوشش کی تو ترکی کے اس مقبول صدر کی اپیل پر ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے، ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، سپاہیوں کے سامنے دیوار بن گئے۔ ایسے میں پاکستان کے کچھ سیاست دان اور عظیم دانشور بھی اپنے ’’عظیم الشان‘‘ تبصرے کرنے لگے کہ اب عوام جمہوریت کا خود دفاع کریں گے۔ طالع آزما قوتوں کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہے۔

اب ڈکٹیٹر شپ کے زمانے گزر گئے۔ گزشتہ دو دنوں سے پاکستانی قوم ان کے منہ سے یہ تبصرے سنتی اور ویسے ہی مسکراتی رہی جیسے مسخرے کے کرتبوں پر مسکراتی ہے۔ کیونکہ سرکس میں مسخرہ بھی اپنی ناکام پرفارمنس پر ہیرو کی طرح ہاتھ اٹھا کر داد کا طالب ہوتا ہے۔ کیا ان رہنماؤں نے ٹھنڈے دل کے ساتھ دامن میں جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اور طیب اردگان میں کیا فرق ہے۔ اس کی بیرون ملک سے ایک ٹیلیفون پر دی گئی کال پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ان کے ہر دفعہ جانے کے بعد لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ دانشوروں کا تو کیا کہنا، ان کی خبروں، ٹویٹر کے ٹویٹ اور فیس بک کے تبصروں میں صبح تک یہ خواہش امڈ امڈ کر سامنے آ رہی تھی کہ فوجی بغاوت کامیاب ہو جائے گی اور ترکی کا اسلامی چہرہ سکیولرازم اور لبرل ازم میں بدل جائے۔ یہ دانشور، تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار پوری رات پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے میڈیا پر چھائے رہے۔

پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور تو اپنے ان ہی آقاؤں کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ بس اب طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کا سورج غروب ہو گیا۔ ذرا مغرب کے میڈیا اور اس کے کرتا دھرتا افراد کی ناکام خواہشوں اور حسرتوں کا تماشا ملاحظہ کریں۔ برطانیہ کا مشہور اخبار ٹیلی گراف خبر لگاتا ہے۔ The Army Sees Itself as the Guardian of Turkey’s Secular Consitution”

(فوج اپنے آپ کو ترکی کے سکیولر آئین کی محافظ سمجھتی ہے) یعنی پارلیمنٹ نہیں فوج آئین کی محافظ ہے۔ جب فوجی دستے بغاوت کے لیے نکلے تو نیویارک ٹائمز نے تو فوج کی جانب عوام کی ہمدردیاں موڑنے کے لیے یہ خبر لگائی ”A Look at Erdogan, Controvesial Rule in Turky” (ترکی میں اردگان کے متنازعہ اقتدار پر ایک نظر)۔ اس دوران دنیا بھر کے اخبار اردگان کے بارے میں افواہیں پھیلاتے رہے۔ ڈیلی بیٹ نے ایک اپ ڈیٹ لگائی ”Erdogan Reportedly Denied Assylum in Germany, Now Headed to London” (جرمنی نے اردگان کو پناہ دینے سے انکار کر دیا، اب وہ لندن جا رہے ہیں) Vox نیوز تو کھل کر بولنے لگا۔ ”Erdogan Is Clearly a Threat to Turkish Democracy and Secularism” (اردگان واضح طور پر ترکی کی جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے ایک خطرہ ہے)۔انتہائی معتبر جانا جانے والا فوکس (FOX) نیوز اپنے تبصرہ نگاروں میں کرنل رالف پیٹرز (Ralf Peters) کو لے کر آیا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2005ء میں پینٹاگان کے جرنل میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں پوری مسلم دنیا کا ایک نیا نقشہ پیش کیا تھا۔ اس کرنل صاحب نے اردگان کے خلاف ایک تفصیلی تبصرہ کیا اور کہا

”If The Coup Succeeds, Islamists Loose and We Win”

(اگر بغاوت کامیاب ہو جاتی ہے تو اسلامسٹ ہار جائیں گے اور ہم جیت جائیں گے)۔ بددیانتی کا ’’شاندار‘‘ مظاہرہ روس کے اخبار سپتنک (Sputnik) نے کیا۔ عوام کی تصویریں لگا کر کیپشن لگایا ”Images From The Ground in Turkey Show People Celebrating Coup” (بغاوت پر خوشی منانے والے عوام کی تصاویر) پاکستان کے سیکولر میڈیا نے بھی اپنے مغربی آقاؤں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی خواہش کو خبر بنایا۔ ایک انگریزی معاصر نے آٹھ کالمی سرخی لگائی ”ERDO-GONE” اس سرخی میں چھپی ان کی حسرت کتنی واضح نظر آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے سیکولر اور لبرل بلاگزر تو پوری رات تڑپتے رہے کہ کسی طریقے سے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کی خوش کن خبر سنیں۔ لیکن ناکامی کے بعد جمہوریت کی بقا اور فتح کا نعرہ لگانے لگے۔

کیا یہ جمہوریت کی فتح ہے یا طیب اردگان کے ان نظریات کی فتح ہے جو وہ اپنے ملک کو بتدریج اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جسے جنگ عظیم اول اور خلافت کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک نے سیکولر ڈھانچے میں تبدیل کر دیا تھا۔ قدیم ترکی لباس ضبط کر لیے گئے تھے اور پینٹ کوٹ اور سکرٹ اور بلاؤز کو لباس بنا دیا گیا۔ عربی رسم الخط کی جگہ رومن رسم الخط نافذ کیا گیا۔

یہاں تک کہ اذان بھی ترکی میں دی جانے لگی۔ ظلم اس قدر کہ پارلیمنٹ میں ارکان نے عربی میں اذان دینا شروع کی تو انھیں گولیوں سے بھوننا شروع کیا گیا اور سات ارکان نے جام شہادت نوش کر کے اذان مکمل کی۔ ان اقدامات کے خلاف جلال بابار اور عدنان مندریس کی حکومت آئی تو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے وزیراعظم عدنان مندریس کو پھانسی دے دی اور صدر جلال بابار کو عمر قید۔ سو سالہ سیکولرازم اور امریکی مدد پر چلنے والی سیکولر فوج کی موجودگی میں طیب اردگان لوگوں کے دلوں میں چھپی اسلام سے محبت کو سامنے لے آیا اور اب پورا مغرب اسے ایک ڈراؤنا خواب سمجھتا ہے ۔انھیں اندازہ ہے کہ اردگان کے یہ چند اقدامات معاشرے کو وہاں لے جائیں گے جہاں شریعت معاشرے کا قانون بن جائے گی۔

وہ معاشرہ جہاں مساجد ویران ہو چکی تھیں، طیب اردگان نے نہ صرف انھیں آباد کیا بلکہ صرف دو سالوں 2002ء اور 2003ء میں سترہ ہزار نئی مساجد تعمیر کروائیں۔ حجاب جس پر پابندی لگائی گئی تھی، یہ پابندی اٹھالی گئی اور نومبر 2015ء میں عالمی میڈیا میں یہ خبر بن گئی کہ ایک جج نے حجاب پہن کر کیس سنا۔ اتاترک نے تمام مدارس ختم کر دیے تھے اور ان کی جگہ’’امام ہاتپ‘‘ اسکول قائم کیے گئے جہاں اسلام کی مسخ شدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اردگان نے پہلے ان کا نصاب بدلا اور اب ان اسکولوں میں جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا، دس لاکھ طالب علموں نے داخلہ لیا۔ جب وہ برسراقتدار آیا تو ان اسکولوں میں صرف 65 ہزار طلبہ تھے۔ تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور قرآن پاک کی عربی میں تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔ اتاترک کے زمانے سے ایک پابندی عائد تھی کہ بارہ سال سے پہلے آپ قرآن پاک کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔

اردگان نے یہ پابندی اٹھا لی۔ سکیولر لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ ایک بچے کو بارہ سال تک سیکولر نظریات پر پختہ کر لیا جائے اور پھر بے شک وہ قرآن پڑھے، اسے تنقیدی نظر سے ہی دیکھے گا۔ ایک مغرب میں رچے بسے معاشرے میں 2013ء میں اردگان نے اسکول اور مسجد کے سو میٹر کے اردگرد شراب بیچنے اور اسکے اشتہار لگانے پر پابندی عائد کر دی۔ ’’زراعت اسلامی بینک‘‘ کو سودی بینکوں پر ترجیح دی۔ اگرچہ کہ یہ تمام اقدامات بنیادی نوعیت کے ہیں اور معاشرے کو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر نہیں ڈھال پاتے لیکن اس کے باوجود بھی خوف کا یہ عالم ہے کہ اردگان کے یہی اقدامات اگر جاری رہے تو ایک دن ترک معاشرے سے ایسی لہر ضرور اٹھ سکتی ہے جو شریعت کو نافذ کر کے دکھا دے گی اور شریعت اور خلافت یہ دو لفظ تو مغرب اور سیکولر لبرل طبقات کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ لوگ جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اردگان کے اسلامی اقدامات کے حق میں نکلے۔

اس کے لیے کہ اس سے پہلے کئی بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا لوگ مزے سے سوتے رہے‘ یہ اسلامی اقدار جو ان کی روح میں رچی بسی ہیں۔دنیا بھر کے سیکولر لبرل ساری رات بغاوت کی کامیابی خواہش میں تڑپتے رہے۔

اگر یہ کامیاب ہو جاتی تو پھر ان کے تبصرے دیکھنے کے قابل ہوتے۔ کیسے فوجی بغاوت کی حمایت میں رطب اللسان ہوجاتے۔اب ناکام ہوگئے ہیں تو جمہوریت اور سسٹم کے بقا کے لیے عوام کی جدوجہد کا نعرہ لگا دیا اور پھر ان کی ہمنوائی میں پاکستان کی جمہوری سیاست کے بددیانت، کرپٹ اور چورسیاستدان بھی میدان میں آگئے جنھوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اور اپنی جائیدادیں بنائیں۔ ترک عوام نے سرکس کے ہیرو کی طرح اپنی فنکاری دکھائی اور داد وصول کی۔ لیکن اب یہ ویسی ہی داد وصول کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا کیا جائے لوگ ان کی خواہشوں اور گفتگو پر ویسے ہی مسکراتے ہیں جیسے سرکس کے مسخرے کی حرکتوں پر مسکراتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مسخرہ اپنے مسخرے پن پر داد چاہتا ہے اور وصول کرتا ہے۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ حرکتیں مسخرے والی کریں اور داد ہیرو کی وصول کریں۔

اصل اشاعت ایکسپریس 

منگل، 12 جولائی، 2016

سیکولر کہلانے والے بھارت کے پاس اب کیا دلیل ہے: کالم نگار | نصرت جاوید

انتہاء پسندی کے زہر سے ذہنوں کو گمراہ کرنے اور دلوں میں کدورتیں بھرنے کے لئے جو زہر استعمال کیا جاتا ہے اس کے لئے بنیادی جوہر عموماََ ’’تاریخ‘‘ ہی سے کشید کیا جاتا ہے۔ کوئی ٹھوس حوالے موجود نہ ہوں تو ’’تاریخ‘‘ گھڑلینے میں بھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔

مثال کے طورپر ’’افغان جہاد‘‘ کی تب وتاب کو رواںرکھنے کے لئے یہ فقرہ کئی دہائیوں تک کسی وظیفے کی طرح دہرایا جاتا رہا کہ افغانستان دُنیا کا وہ واحد ’’ملک‘‘ ہے جو کبھی غیروں کے قبضے میں نہیں رہا۔ اسی لئے سکندر اعظم سے لے کر امریکی سامراج تک ہر Empireکا قبرستان ثابت ہوا۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے اچھے بھلے ’’عالموں‘‘ نے بھی یہ حقیقت یاد رکھنے کی زحمت گوارانہ کی کہ ’’افغانستان نام کا ملک تو ایجاد ہی 1747ء میں ہوا تھا۔ اس سے قبل کابل ہو قندھار ہو یا پھر ان دونوں شہروںسے کہیں زیادہ تاریخی اور تخلیقی ہرات، ہمیشہ دہلی یا اصفہانمیں بیٹھے شہنشاہوں کے ’’صوبے‘‘ ہوا کرتے تھے۔

کابل، مغل سلطنت کا ایک صوبائی مرکز تھا۔ ظہیر الدین بابر کو اس شہر سے عشق تھا۔ اسی لئے مرنے کے بعد اس نے یہاں دفن ہونے کی وصیت لکھوائی تھی۔ اس وصیت پر عمل ہوا۔ اگرچہ اس کی موت کے بعد دہلی کے تخت پر بیٹھنے والے ہمایوں کو اصفہان جاکر پناہ لینا پڑی کیونکہ دہلی پر ایک ’’افغان ‘‘شیرشاہ سوری قابض ہوگیا تھا۔اس ’’افغان‘‘ شہنشاہ نے مگرجرنیلی سڑک بنانے کا آغاز پشاور سے کیا تھا کابل سے نہیں ۔ کیونکہ وہاں اس وقت بھی بابر کا بیٹا -کامران-جس کے نام پر بنی بارہ دری آج بھی لاہور کے دریائے راوی میں نظر آتی ہے- تخت نشین تھا۔ افغانستان کی ’’تاریخ‘‘ مگر میرے آج کے کالم کا اصل موضوع نہیں۔

دل میرا کشمیر میں اٹکا ہوا ہے۔جس کی اپنی ایک ٹھوس تاریخ ہے جو کئی ہزار برس پرانی ہے۔ اس کی حیران کن ’’تاریخ‘‘ سے بھی مگر انتہاء پسندوں نے اپنی اپنی پسند کے مخصوص حصے چن لئے ہیں اور ان میں سے زہریلا جوہر کشید کرتے ہوئے ذہنوں کو گمراہ کرنے دلوں میں کدورتیں بھرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

1947ء میں ’’برٹش انڈیا‘‘ کو دو ملکوں میں تقسیم کرکے انگریز یہاں سے چلا گیا تھا تو دلی سرکار نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کو جائزثابت کرنے کے لئے مختلف النوع دلائل ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مرتے دم تک اپنے ’’کشمیری پنڈت‘‘ ہونے پر نازاں نہرو کو ’’سیکولر‘‘ ہونے کا دعویٰ تھا۔کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ثابت کرنے کے لئے لہذا وہ مذہبی کے بجائے جدید سیاسی دلائل گھڑتا چلاگیا۔ اس ضمن میں اس کو مزید آسانیاں اس لئے بھی میسر ہوگئیں کیونکہ اس کے دور میں کشمیری قوم پرستی کی واحد علامت سمجھے جانے والے شیخ عبداللہ نے پاکستان میں شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ خواہش شیخ عبداللہ کی اصل میں اگرچہ یہ رہی کہ کسی نہ کسی طرح ریاستِ جموںوکشمیر کا وہ جداگانہ اور کافی حد تک خودمختار ڈھانچہ برقرار رہ سکے جو ڈوگرہ مہاراجوں نے قائم کیا تھا۔اس ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی تمنا میں کسی زمانے میں ’’شیر کشمیر‘‘ کہلاتا شیخ عبداللہ دراصل عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر اس خطے کا مہاراجہ ہی بننا چاہتا تھا۔

تاریخ مگر بڑی ظالم ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ ایک جگہ رُک نہیں سکتی۔ ثبات اس میں صرف تغیر کو نصیب ہوتا ہے۔ عوامی مقبولیت کے زعم میں ’’تاریخ‘‘ کو ایک خاص ڈھانچے اورنظام تک محدود رکھنے کی کوششیں کرتا شیخ عبداللہ اسی لئے ہیرو سے زیرو ہوکر مرا۔ شیخ عبداللہ بھی لیکن میرے آج کے کالم کا اصل موضوع نہیں۔

مجھے حیرانی اور پریشانی ہے تو اس بات پر کہ خود کو ’’سیکولر‘‘ کہلانے والی دلی سرکار جسے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت -آباد ی کے حوالے سے - کہلوانے کا شوق بھی ہے، وادیٔ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے وحشت وبربریت کی انتہائوں کو چھورہی ہے۔ نہتے اور معصوم نوجوانوں کو محض فوجی اور نیم فوجی دستوں کی قوت سے اپنا غلام بنائے رکھنے کے لئے مگر اس کے پاس اب کوئی ’’سیکولر‘‘ دلیل باقی نہیں رہی۔ وادیٔ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لئے دلی سرکار کے پاس اب بہانے ہیں تو وہ اس ’’تایخ‘‘ سے مستعار لئے جارہے ہیں جو کشمیر کے ہندو پنڈتوں نے اپنے دلوں اور دماغوں میں ابھی تک لبارکھی ہے۔اس تاریخ کو زندہ رکھنے کیلئے چند ٹھوس علامتیں بھی درکار تھیں۔ بدقسمتی سے امرناتھ کی صورت ایک علامت آج بھی موجود ہے۔

ہمالیہ کی چوٹیوں پر جمع ہوئی برف پگھل کر جب وادیٔ کشمیر کے دریائوں کی صورت بہنا شروع ہوجاتی ہے تو سری نگر سے کئی میل دور موجود ایک غار میں اس برف کے قطرے گرکر ایک ایسی شکل بنادیتے ہیں جو ہندوئوں کے مہادیوتائوں میں سے ایک -شیوا- سے منسوب علامت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

اسی غار تک پہنچنا بہت دشوار ہے۔ ہزاروں کلومیٹر کی چڑھائی ہے۔ راستے تنگ ہیں اور پگ ڈنڈیاں انتہائی خطرناک۔ سفر پیدل کرنا ہی زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔ خچر کی سواری اگرچہ سفر کو ذرا آسان بنادیتی ہے۔

امرناتھ کہلاتا یہ غار یقینا ہندومذہب کے حوالے سے ایک اہم ترین علامت ہے۔ اس کی ’’خبر‘‘مگر بھارت کے کئی ہندو انتہاء پسندوں تک 1990ء تک بھی نہیں پہنچی تھی۔ برطانوی سامراج نے ویسٹ انڈیزمیں اپنی نوآبادیوں میں بھارت کے یوپی اور مدھیہ پردیش کے دیہاتوں سے جوخاندان لے جاکر کاشتکاری کے لئے بسائے تھے ان میں سے ایک خاندان کے ہاں وی ایس نیپال نامی لڑکا پیدا ہوا۔لندن میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اس میں ناول نگار بننے کی لگن شدید تر ہوگئی۔ ویسٹ انڈیز سے آئے اس بھارتی نژاد نے جب انگریزی لکھی تو اس زبان کے مہا کلاکاروں کو بھی حیران کردیا۔ پھر اسی نیپال نے اپنی ’’جڑوں کی تلاش‘‘ کی خاطر بھارت یاتراکا فیصلہ کرلیا۔ بھارت پہنچ کر اسے مگر بہت مایوسی ہوئی۔ اپنی اس مایوسی کا اظہار اس نے اپنی کتاب میں کھل کر کیا۔ دلی سرکار اس کتاب سے بہت ناراض ہوئی۔ بھارت کے قبضے میں موجود وادیٔ کشمیر پہنچ کر البتہ اسے کچھ راحت ملی۔ راحت کے ان ہی ایام میں اس نے امرناتھ کا ذکر سن کر وہاں تک پہنچنے کا کشت بھی بھگتا۔

اس کی کتاب نے دلی سرکارکو چراغ پا تو ضرور کیا مگر ہندو انتہاء پسندوں کو اسی کتاب کی بدولت وادیٔ کشمیر کو ’’آریہ ورت کا اٹوٹ انگ‘‘ ثابت کرنے کے لئے امرناتھ کے آغاز کی صورت میں ایک ٹھوس حوالہ مل گیا۔بھارتی معیشت میں تھوڑی خوش حالی آئی تو نودولتیے ہندوئوں نے ’’امرناتھ یاترا‘‘کو عبادتی مشن کی صورت دے ڈالی۔ یاترا کے پھیلتے چلن نے سیاحوں کی محتاج وادیٔ کشمیر کو چند معاشی فوائد بھی یقینا مہیا کئے مگر اب یہی یاترا کشمیر ہی کے ماحولیاتی حسن کو تباہ کرنے کے ساتھ ہی ساتھ وہاں کے نوجوانوں کے لئے عذاب بھی بننا شروع ہوگئی ہے۔

اس یاترا کے شروع ہونے کے سیزن میں یاتریوں کے ’’تحفظ کو یقینی بنانے‘‘ کے لئے قابض افواج مزید وحشی ہوجاتی ہیں۔ برہان وانی کو ’’حزب المجاہدین کا خوفناک کمانڈر‘‘ ٹھہراکر اسی بہانے ماردیا گیا ہے ۔ اس کی وحشیانہ ہلاکت نے وادی کے لوگوں میں جو غصہ ابھارا اس پر قابو پانے کے لئے قابض افواج ابھی تک 30سے زیادہ محض نعرے لگاتے اور پتھر پھینکتے نوجوانوں کو شہید کرچکی ہے۔ تلخی اتنی بے قابو ہوچکی ہے کہ وادیٔ کشمیر کی نام نہاد ’’منتخب‘‘ وزیر اعلیٰ، محبوب مفتی، حریت کانفرنس میں جمع ’’علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں‘‘ سے نوجوانوں کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دینے کی استدعا کررہی ہے۔ تاریخ مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ایک جگہ تھم کر نہیں رہ جاتی۔ ثبات یہاں صرف تغیر ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ حریت کانفرنس، میری ناقص رائے میں کسی زمانے میں ’’شیر کشمیر‘‘ کہلاتے شیخ عبداللہ کی طرح کشمیر کی جدید ترین نسل کواب غیر متعلق اور بے اثر نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے کشمیر کی اس جدید ترین نسل کو ہم پاکستانی بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر اب بھی وانی جیسے نوجوانوں کے جنازے میں پاکستانی جھنڈے لہراتے نمودار ہوتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت 

پیر، 9 مئی، 2016

چور کو پڑ گئے مور۔ اوریا مقبول جان

چور کو پڑ گئے مور۔  اوریا مقبول جان 


کیا یہ سب ہنگامہ جو پوری دنیا میں پانامہ لیکس کے بعد برپا ہوا ہے‘ یہ سب ایک اچانک رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ جرمنی کے ایک اخبار کے پاس خفیہ معلومات کا ایک پلندہ آتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں مانگی جاتی۔ اخبار ان معلومات کو تصدیق کے لیے ایک بہت بڑی این جی او ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلزم‘‘ کو بھیج دیتا ہے۔ حیرت ہے کہ پھر بھی معاوضہ طلب نہیں کیا جاتا اور دنیا بھر کے صحافی جو اس این جی او کے ممبران ہیں ان معلومات کی تصدیق میں لگ جاتے ہیں۔

ایک سال کی محنت اور تگ و دو کے بعد پونے دو کروڑ خفیہ دستاویز تصدیق کے مراحل سے گزرتی ہیں اور پھر ایک دن اچانک دھماکا ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں تھرتھرا جاتی ہیں۔ ایک فہرست ان لوگوں کی خفیہ آمدنی کی سامنے آتی ہے جو ان ملکوں میں عزت دار سمجھے جاتے ہیں۔ سیاست دان‘ تاجر‘ صنعتکار‘ ان سب کی خفیہ دولت اور ٹیکس چوری‘ رشوت‘ کرپشن اور جرم سے کمائے ہوئے سرمائے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ یہ سب نہ تو اتنا اچانک ہوا ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا خیراتی کام تھا کہ سب کا سب مفت ہو گیا۔

اس سب کو کثیر سرمائے کی فراہمی سے ممکن بنایا گیا اور ایسا کرنے کے پیچھے ایک مقصد تھا۔ یہ کوئی سیاسی شعبدہ بازی کاکھیل تماشا نہیں بلکہ دو اور دو چار کی طرح بولتی ہوئی معاشی ضروریات پر مبنی حقیقت ہے اور اسے اس وقت دنیا بھر کے بڑے بڑے سرمایہ دار ایسے جانتے ہیں جیسے آسمان پر چمکتا سورج۔ انھیں معلوم ہے کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے‘ کون کروا رہا ہے‘ کس نے سرمایہ فراہم کیا اور آخر کار ان لوگوں کے خفیہ سرمائے کے ساتھ کیا کیا جانے والا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے تجارتی مراکز میں بیٹھے سرمایہ داروں کے منہ پر صرف ایک ہی نام ہے جو اس سارے کام کے لیے سرمایہ بھی فراہم کر رہا ہے اور اس نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اسے ایک عالمی ایجنڈا بھی بنوا لیا ہے۔

اس شخص کے بارے میں یہ حقیقت دنیا کے بڑے بڑے کاروباری حلقے جانتے ہیں کہ یہ جب چاہے اور جس وقت چاہے کسی بھی ملک کی کرنسی کی قیمت گرا سکتا ہے‘ بینک دیوالیہ کر سکتا ہے‘ حکومتیں گرا سکتا ہے۔ اس شخص کا نام جارج سوروز George Soros ہے‘ اور آج کل یہ نام ہر خوفزدہ سرمایہ دار کی زبان پر ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے بینک آف انگلینڈ کو 1992ء میں تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا اور برطانیہ کو اپنی کرنسی کی قیمت گھٹانا پڑی‘ یورپی یونین کے ایکسچینج ریٹ سے علیحدہ ہونا پڑا اور امریکی ڈالر کی گود میں بیٹھنا پڑا۔

12 اگست 1930ء کو ہنگری کے یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے اس شخص کا نام شوارٹز گاؤرگی Schwartz Gyorgy رکھا گیا۔ چونکہ اس نام سے وہ ایک خالص یہودی کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا‘ اس لیے امریکا میں اس نے جارج سوروز کے نام سے اپنی شناخت بنائی۔ وہ دنیا کے تیس بڑے سرمایہ داروں میں شامل ہے۔ یہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہے جو کھلم کھلا صہیونی عالمی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں اور ایک عالمی یہودی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اور اپنی مذہبی پیش گوئیوں پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسا ایک دن ہو کر رہے گا۔ سوروز دنیا کا سب سے بڑا این جی او ڈونر ہے۔ا س کی سو روز فاؤنڈیشن نے گیارہ ارب ڈالر اب تک دنیا کی مختلف انسانی حقوق‘ حقوق نسواں اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو دیے ہیں۔

مشرقی یورپ میں کیمونزم کے خلاف تحریکوں کو سرمایہ اسی نے فراہم کیا۔ امریکی صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں اس کا سرمایہ شامل ہوتا ہے۔ میڈیا کی خفیہ فنڈنگ اس کا معمول ہے اور اسی لیے میڈیا اسے ایک عظیم مخیر‘ جمہوریت کا مدد گار اور عالمی امن کا خواہاں بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی معاشی پیش گوئیوں کے سلسلے میں مشہور ہے اور اس کی کتابیں‘ مضامین اور لیکچر دنیا بھر میں پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ اس نے 2008ء کے معاشی بحران کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ بلبلہ پھٹنے والا ہے اور ابھی اس نے جنوری 2016ء میں سری لنکا کے اکنامک فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جلد ایک بہت بڑا معاشی طوفان آنے والا ہے جو دنیا بھر کی کرنسیوں کو تہہ و بالا کر دے گا۔ کاروباری حلقے اس کی بات کو جسقدر سنجیدہ لیتے ہیں اسقدر وہ کسی اسٹاک مارکیٹ کے احوال کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک کٹر صہیونی ہے جس کو سی آئی اے کی خفیہ مدد حاصل ہے‘ اسی لیے وہ اپنے ہر معرکے میں کامیاب لوٹتا ہے۔ پانامہ لیکس کے پیچھے اسی کا سرمایہ ہے اور اسی نے اس تحقیقاتی کنسورشیم کو فنڈ فراہم کیے تا کہ ایسے ناقابل تردید ثبوت فراہم کر دیے جائیں کہ دنیا بھر کے یہ ’’عزت دار‘ چور اور بددیانت سیاست دان اور سرمایہ دار قابو میں آ جائیں اور پھر ان کا تمام سرمایہ ان سے چھین لیا جائے۔

سی آئی اے ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے اور سوروز کیوں اس کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے‘ یہ اسقدر سیدھی سی بات ہے کہ وال اسٹریٹ سے لے کر لندن اور پیرس بلکہ بیجنگ تک ہر بڑے سرمایہ دار کے دماغ میں آ چکی ہے۔ یہ دو اور دو چار کی طرح واضح معاشی حقیقت ہے۔ امریکا کا قرضہ 19 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے‘ جب کہ یورپی یونین یعنی یورو زون کے قرضے 16 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سات سال سے یورپین سینٹرل بینک صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ روس کے سیاسی منظرنامے پر آنے‘ چین کے معاشی طاقت بن جانے اور پھر ایران کے ساتھ مل کر ڈالر کے بجائے دیگر کرنسیوں میں خرید و فروخت کے رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔

یوں وہ محفوظ (SURPLUS) سرمایہ جو آجکل ڈالروں کی شکل میں ہے کسی اور جانب منتقل ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تیل کی کھپت کم ہو رہی ہے اس لیے پٹرو ڈالر یعنی تیل کی ڈالر میں خریدوفروخت سے جو امریکی ڈالر کی ساکھ ہے وہ ختم ہوتی جائے گی کیونکہ دیگر ذرایع پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ جو امریکی بالادستی کو صہیونی ایجنڈے سے منسلک کرتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے کہ ایک دن امریکی معاشی برتری ختم ہو جائے۔ ایسے میں صرف ایک سرمایہ ہے جو اس صورت حال میں امریکی ساکھ کو بچایا جا سکتا ہے۔ یہ ہے‘ مختلف ملکوں کے بددیانت حکمرانوں اور چور سرمایہ داروں کا 105 ہزار ارب ڈالر سرمایہ جوآف شور کمپنیوں کی صورت پڑا ہوا ہے۔

اس میں ہر طرح کے جرم کا پیسہ بھی شامل ہے۔ اس میں منشیات کے دھندے‘ اسلحے کی فروخت اور حکمرانوں کی کرپشن کا پیسہ سب شامل ہے۔ امریکا میں ہر سال 160.7 ارب ڈالر کی منشیات فروخت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں جرم سے کمائے جانے والے پیسے کی تعداد 2003ء کے اندازے کے مطابق 48 ارب پاؤنڈ تھی۔ سوئٹزرلینڈ کی فنانس منسٹری نے 1998ء میں بتایا کہ ہر سال وہاں 500 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

ڈو جونز (Dow-Jones) جو سب سے بڑا معاشی تجزیہ کار چینل اور وال اسٹریٹ کی آنکھ سمجھا جاتا ہے اس کے نزدیک دنیا بھر کی جی ڈی پی کا 5 فیصد سرمایہ جرم سے کمایا جاتا ہے اور اس کی تعداد دو ہزار سے تین ہزار ارب ڈالر تک ہے۔ یہ سب سرمایہ آف شور کمپنیوں کے ذریعہ سفید کیا جاتا ہے اور پھر ان چور اور بددیانت حکمرانوں اور تاجروں کو کاروبار کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ اس سے ان ملکوں کی تجارت اور صنعت میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں سرمایہ کاری بڑھتی ہے۔

ان چوروں کو اسی لیے اجازت دی گئی تھی لیکن اب تو معاملہ اس سودی معاشی نظام کو بچانے اور امریکی ڈالر کی حکومت کا آ گیا ہے۔ اس لیے پانامہ لیکس نے ایک چھوٹا سا آغاز کیا ہے۔ یہ امریکی کانگریس میں ایک قانون کا مسودہ تیار ہو چکا جس کے تحت قومی مفاد میں لاء فرموں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان سب چوروں کی جائیدادوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ایسا ہی قانون پیروی یورپی یونین کے ملک منظور کریں گے اور پھر ان معلومات پر تحقیقات کا آغاز ہو گا۔ تمام اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔ یہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ رکھنے والے بے وقوف حکمران اور سرمایہ دار جانتے نہیں کہ ان کی نوے فیصد دولت کا امریکی حکمرانوں کو بخوبی علم ہے کیونکہ وہ اپنا تمام کاروبار ڈالروں میں کرتے رہے ہیں۔

اور ان کا سرمایہ امریکی نظام معیشت کی نظر میں ہوتا ہے۔ یہ سب صرف تین چار سال کے عرصے میں ہو جائے گا۔ تقریباً 105 ہزار ارب ڈالر امریکا اور یورپ کی قسمت بدل دے گا اور چور حکمران اور جرم سے سرمایہ کمانے والے سرمایہ دار اپنی دولت کو اپنے سامنے ان ملکوں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھتے رہ جائیں گے۔ آج تک کسی ڈکٹیٹر کی لوٹی ہوئی دولت کو ان ملکوں نے اسے خرچ نہیں کرنے دیا‘ مارکوس‘ پنوشے اور شاہ آف ایران مثالیں ہیں۔ پیرس کے بیچوں بیچ ایک بہت بلند عمارت ہے جو شاہ آف ایران کی ملکیت ہے۔

انقلاب آیا تو اسے فرانس کی حکومت نے قبضے میں لے لیا اور پوچھا بتاؤ یہ سرمایہ کہاں سے لائے۔ جواب ندارد۔ دور کھڑے حسرت سے اسے دیکھتے رہ گئے۔ یہی حال چند سالوں بعد ان لوگوں کا ہونے والا ہے جن کا نام پانامہ لیکس میں ہے۔ ایک دن ہائیڈ پارک میں کھڑی شریف فیملی ان فلیٹوں کو حسرت سے دیکھ رہی ہو گی کہ یہ کبھی ہمارے تھے۔ کیونکہ وہاں یہ ثابت کرنا کہ سرمایہ کہاں سے آیا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ وہاں ٹی او آر وہ طاقتیں بنائیں گی جو اس ساری گیم پر اربوں ڈالر خرچ کر چکی ہے۔

بشکریہ ایکسپریس اخبار

جمعرات، 28 اپریل، 2016

سرمائے کا کوئی وطن نہیں ہوتا (ٹیکس چور سرمایہ دار اشرافیہ کی منطقیں دنیا بھر میں ایک جیسی ہیں۔) اوریا مقبول جان



ٹیکس چور سرمایہ دار اشرافیہ کی منطقیں دنیا بھر میں ایک جیسی ہیں۔ عوام کا خون چوسنے والا یہ طبقہ سیاسی اشرافیہ کے تعاون اور آشیرباد سے اپنی اس لوٹی ہوئی دولت کو جہاں محفوظ خیال کرتا ہے رکھتا ہے اور اپنی اس ٹیکس چوری‘ سرمائے کو ملک سے باہر نکالنا‘ کاروبار کو کسی دوسرے سازگار ماحول والے ملک میں منتقل کرنا‘ ایسے اقدامات کا ذمے دار وہ حکومتوں‘ ملکی حالات‘ عدم تحفظ اور سرکاری کرپشن کو گردانتا ہے۔

اس کی یہ سوچ اس کے خریدے ہوئے میڈیا میں ایسے پیش کی جاتی ہے جیسے یہ تو اس ملک میں اپنا سرمایہ رکھنا چاہتا تھا‘ یہ تو اس ملک کا خیرخواہ تھا لیکن حکمرانوں‘ بھتہ خوروں‘ سیاسی مخالفوں اور خراب امن و امان نے اس کا جینا دو بھر کر دیا‘ وہ کمانا اور کما کر خدمت کرنا چاہتا ہے‘ لیکن وہاں چلا گیا جہاں وہ سکون سے کاروبار کر سکے۔

ایک زمانہ تھا جب میڈیا ہاوسزز کا رواج نہ تھا۔ ایک کارکن صحافی یا لکھاری چند پیسے اکٹھا کرتا‘ ایک دو ساتھیوں کو ملاتا‘ مختصر سا عملہ جن میں زیادہ تر عملی صحافی اور کاتب شامل ہوتے‘ اور پھر اپنی تحریر‘ اپنے بے لاگ تجزیے اور جرأت مندانہ صحافت کی بنیاد پر اس کا اخبار عوام میں مقبول ہو جاتا۔ ہماری تاریخ ایسے عظیم دانشوروں‘ ادیبوں اور صحافیوں کی امین ہے جو خود اخبار نکالتے تھے اور ان کا کوئی مالک‘ سربراہ یا فنانسر نہیں تھا۔ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ظفر علی خان‘ ابوالکلام آزاد‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ حمید نظامی اور اس قبیل کے کئی چراغ راہ اور چراغ منزل‘ ہر نظریے کا اپنا ایک اخبار ہوتا تھا۔ ہر تحریک کا ایک نمایندہ تھا۔

کمیونسٹ نظریات ہوں یا اسلامی‘ خاکسار تحریک ہو یا احرار‘ جماعت اسلامی ہو یا سرخ پوش‘ سب کے ترجمان لوگوں کو اپنے نظریات فراہم کرتے تھے۔ لیکن ہم آج جو ’’آزاد میڈیا‘‘ کے دور میں زندہ ہیں وہاں نظریہ تو کہیں دفن کر دیا گیا ہے اور اب میڈیا کی ملکیت‘ ادیب‘ دانشور یا صحافی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کارپوریٹ سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا پوری دنیا میں ہے۔ پاکستان کا کوئی استثناء نہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے کنسورشیم بنے ہوئے ہیں جو میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس کو ہم آزاد میڈیا کہتے ہیں یہ آزاد نہیں بلکہ لکھنے والوں کی آراء‘ ان کے تعصب اور اکثر اخبار کی اس پالیسی پر مشتمل ہوتا ہے جو فنانسر بتاتا ہے۔

آج کے دور کی سب سے اہم دریافت ’’رائے کی صحافت‘‘ (Opinionated Journalism) ہے اور رائے کی صحافت کا سب سے اہم ہتھیار کالم ہیں جو آج دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ یہ کالم یوں تو آزاد اور خود مختار نظر آتے ہیں لیکن جہاں کہیں کارپوریٹ فنانسر کا مفاد یا اس کی پالیسی مقابل میں آ جائے تو پھر دو راستے ہوتے ہیں‘ ایک یہ کہ خاموشی اختیار کی جائے اور دوسرا کھل کر اس کے حق میں لکھا جائے۔ سرمایہ کاری ‘ آزادانہ تجارت‘ اور جدید سودی معاشی نظام کی حمایت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء کا مسئلہ ہے۔

اسی لیے جہاں کہیں کوئی سرمایہ دار اپنی سرمائے کی سلطنت کو بچانے کے لیے ریاست‘ حکومت ا ور عوام کو دھوکا دیتا ہے‘ ان کا مجرم ہوتا ہے تو ہم ریاست‘ حکومت اور عوام کو برا بھلا کہتے ہیں کہ دیکھو وہ تو بھلا آدمی تھا‘ یہاں کاروبار کر رہا تھا‘ لوگوں کو نوکریاں دے رہا تھا‘ ٹیکس دیتا تھا‘ تم نے اس کو اتنا تنگ کیا کہ وہ یہاں سے بھاگ گیا۔ نواز شریف اور اس کے خاندان کے موجودہ پانامہ لیک سکینڈل کے بعد یہ منطق اور دلیل بہت عام کر دی گئی۔ خود وزیراعظم نے اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خاندان کے کاروبار کی مظلوم داستان پیش کی اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہم پر جینا تنگ کر دیا گیا تھا۔ اس لیے ہمارے خاندان نے کاروبار بیرون ملک شروع کیا۔ کیا کمال کی بات ہے۔

آپ کو سیاست کرنے کے لیے‘ پارٹی بنانے‘ جلسے کرنے‘ الیکشن لڑنے‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے کے لیے تو یہ ملک بہت اچھا لگتا ہے‘ یہاں بھاگ بھاگ آتے ہو‘ ایئرپورٹ سے واپس بھیجے جاؤ‘ پھر بھی آتے ہو‘ اقتدار کے لیے آپ کو یہ ملک خطرناک نہیں لگتا لیکن صرف کاروبار کرنے کے لیے یہ ملک بدترین ہے۔ اگر آپ کو جلا وطن کیا گیا تھا‘ حالانکہ آپ جلا وطن اپنی مرضی سے ہوئے ۔

آپ اس ملک پر حکومت کرنے کے لیے تو واپس آ گئے لیکن اپنے ساتھ جلا وطن ہونے والے کاروبار کو وہیں چھوڑ آئے۔ کیا آپ کے اقتدار کی واپسی کے سفر میں کاروبار ساتھ واپس نہیں آ سکتا تھا۔ کیوں واپس آتا۔ اس ملک کو چلانے کے لیے بیس کروڑ لوگوں کا خون پسینہ جو موجود ہے‘ آپ کے بیٹوں کے سرمائے کی تو پانامہ میں ضرورت یا پھر برطانیہ میں۔

بحیثیت وزیراعظم اپنے خطاب میں مظلومیت کی کہانی سنائی گئی کاش کوئی ان سے ا ن نوازشات اور مہربانیوں کا ذکر بھی کر دیتا جو اس ملک‘ اس کی حکومت اور خود ان کے اقتدار نے ا ن کے کاروبار پر کیں اور ان کا کاروبار ایسے پھلا پھولا جیسے بانس کے درخت راتوں رات کئی کئی فٹ بلند ہو جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں صرف اتفاق فونڈری کو قومی ملکیت میں نہیں لیا تھا‘ بلکہ ہزاروں پاکستانیوں کی فیکٹریاں‘ سرکاری ملکیت میں چلی گئی تھیں۔ برسراقتدار آتے ہی بھٹو نے ہیوی انجینئرنگ‘ ہیوی الیکٹریکل کمپنیاں‘ گیس اور آئل ریفائنریاں‘ اور آئرن اور اسٹیل کے کارخانے قومیائے یہ 1971ء میں ہوا۔ دوسری بار یکم جنوری 1974ء میں عام آدمی کی بچت پر قبضے کے لیے تمام بینک‘ انشورنس کمپنیاں‘ شپنگ کمپنیاں اور پٹرولیم کمپنیاں قومیائی گئیں۔ تیسرے مرحلے یعنی یکم جولائی 1976ء میں دو ہزار سے زیادہ کپڑے کے کارخانے اور چاول کے شیلر قبضے میں لیے گئے۔

ان کے مالکان‘ سب کے سب بھی اسی ملک کے شہری تھے۔ طویل عرصے تک ان کی فیکٹریاں سرکار کے کارندے چلاتے رہے اور پھر ان کو مارکیٹ میں ’’اوپن ٹینڈر‘‘ کے ذریعے نجی ملکیت میں دیا گیا۔ یہ الگ بات کے اونے پونے دام فروخت کیا گیا۔ لیکن وزیراعظم کی نظر میں مظلوم ’’شریف خاندان‘‘ وہ ان منظور نظر تین خوش نصیب اور خوش بخت لوگوں میں شامل تھا جن کی قومیائی گئی فیکٹریاں ضیاء الحق نے انھیں جوں کی توں واپس کر دیں۔ یہ تین تھیں۔1- اتفاق فونڈری‘ 2- نوشہرہ انجینئر نگ اور 3- ہلال گھی مل ملتان۔ پھر اس کے بعد نواز شریف پر جنرل ضیاء الحق کی نگاہ انتخاب پڑی اور وہ پنجاب کے وزیر خزانہ ہو گئے۔

اس وقت تک اتفاق گروپ کی پانچ کمپنیاں تھیں۔ اس کے بعد اس ’’مظلوم ‘‘ خاندان پر ا للہ کا بیش بہا فضل کرم شروع ہوا اور صرف چند سالوں میں ان کی تعداد 31 ہو گئی۔ 2 مارچ 1994ء کو خالد سراج نے جو ابتدائی پانچ کمپنیوں میں شامل تھے اپنی پریس کانفرنس میں ان کمپنیوں کی فہرست پیش کی جسے ایچ یو بیگ کمیٹی نے تصدیق کے ساتھ رپورٹ میں شامل کیا۔ اس دوران ان ہزاروں لوگوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا جن کے کاروبار قومیائے گئے اور ان کی اکثریت آج بھی اسی ملک میں کاروبار کر رہی ہے۔ لیکن مظلوم شریف خاندان پانامہ چلا گیا۔

کیا سرمائے کو ٹیکس چوری یا منافع خوری کی وجہ سے کسی دوسرے ملک میں منتقل کرنا‘ آف شور کمپنیاں بنانا اور کالے دھن کو سفید کرنے کا تعلق ملکی حالات سے ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں۔ امریکا سے زیادہ مستحکم اور کارپوریٹ سرمائے کے لیے محفوظ ملک اور کوئی نہیں لیکن امریکا دنیا کا پہلے نمبر پر ملک ہے جس کے ٹیکس چوروں نے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کی 2012ء رپورٹ کے مطابق 32 ہزار ارب ڈالر آف شور کمپنیوں میں رکھا ہوا ہے۔ یہ سرمایہ اگر امریکا میں ہوتا تو سالانہ 200 ارب ڈالر کا ٹیکس اکٹھا ہوتا۔ امریکا کی سالانہ جی ڈی پی 16 ہزار ارب ڈالر ہے اور اس سے دگنا سرمایہ باہر لے جایا گیا ہے۔ کیا وہاں بھی کوئی پرویز مشرف آ گیا تھا‘ یا کوئی ذوالفقار علی بھٹو کارخانے قومی ملکیت میں لینے لگا تھا۔

یورپ سے سرمایہ کار اپنی فیکٹریاں اٹھا کر پولینڈ‘ چین‘ ملائیشیا‘ تائیوان‘ انڈونیشیا‘ کینیا لے جاتے ہیں۔ برمنگھم اور مانچسٹر جو صنعتی شہر ہوتے تھے آج ویران ہو چکے‘ ملوں کی جگہ گھر بن گئے‘ کیا وہاں بھی بھتہ خور‘ دہشت گرد ان کو تنگ کرتے تھے۔ نہیں سرمایہ دار منافع کا دیوانہ ہوتا ہے۔ اسے چین میں مزدور ایک ڈالر میں ملے گا تو وہ انگلینڈ میں دس ڈالر میں کیوں لے گا۔ کارپوریٹ سرمایہ کار کی نہ کوئی قوم ہوتی ہے‘ نہ علاقہ‘ نہ وطن سے کوئی محبت ہوتی ہے اور نہ کوئی اخلاقیات۔ اس کا مذہب سرمایہ اور اس کا وطن کاروباری سلطنت ہوتی ہے۔ جہاں اس کا مذہب آگے بڑھے اور اس کی سلطنت کو وسعت ملے‘ وہاں جا کر آباد ہو جاتا ہے۔ افلاطون نے درست کہا تھا۔ ’’تباہ ہو گئیں وہ قومیں جن پر تاجر یا جرنیل حکومت کرنے لگیں۔‘‘ ہم کسی قدر بدقسمت ہیں۔ ہم پر دونوں ہی باری باری حکومت کرتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس : اشاعت  28 اپریل 2016

جمعرات، 21 اپریل، 2016

چھوٹو گینگ میاں شہباز شریف اور پنجاب پولیس کا پہلا ٹیسٹ تھا اور بدقسمتی سے: جاوید چوہدری


ناکام کپتان
جاوید چوہدری : ایکسپریس۔ منگل 19 اپريل 2016

چھوٹو گینگ میاں شہباز شریف اور پنجاب پولیس کا پہلا ٹیسٹ تھا اور بدقسمتی سے پنجاب پولیس اور میاں شہباز شریف دونوں اس ٹیسٹ میں ناکام ہو گئے، دونوں بری طرح ’’ایکسپوز‘‘ ہو گئے، کیسے؟ ہم اس کے جواب سے پہلے غلام رسول عرف چھوٹو کو ڈسکور کریں گے۔



غلام رسول راجن پور کی تحصیل روجھان کے ایک گائوں سے تعلق رکھتا تھا، باپ دادا چند ایکڑ زمین کے مالک تھے، یہ چند ایکڑنسلوں سے ان کا نان نفقہ تھے، غلام رسول کے دو بھائی تھے، پیارے خان اور رسول بخش، دوسرا بھائی رسول بخش شوبی کہلاتا تھا، صادق آباد کے تھانے ماچھکہ کی حدود میں دو قبائل رہتے ہیں، چاچڑ اور کوش! یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے دشمن ہیں،چاچڑ قبیلے کے ایک شخص قابل چاچڑ نے کوش قبیلے کی ایک خاتون سے تعلقات استوار کر لیے، یہ خبر نکلی تو قبائلی روایات کے مطابق کوش قبیلے نے چاچڑ قبیلے کے ملزم کو ’’کالا‘‘ قرار دے دیا، یہ لوگ مقامی زبان میں کالے کے بدلے کو ’’چٹی‘‘ کہتے ہیں۔

چاچڑ قبیلے نے چٹی دینے سے انکار کر دیا، کوشوں کو غصہ آ گیا اور انھوں نے قابل چاچڑ کو قتل کر دیا، چاچڑوں نے کوشوں پر حملہ کر دیا، حملے میں کوش قبیلے کے 8 لوگ قتل ہو گئے، غلام رسول کا بھائی شوبی چاچڑوں کا دوست تھا، چاچڑ گائوں سے بھاگ گئے اور بھاگتے ہوئے اپنے بچے شوبی کے پاس چھوڑ گئے، کوشوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے غلام رسول کے گھر پر حملہ کیا، اہل خانہ پر تشدد کیا اور گھر کو آگ لگا دی، یہ انتقام صرف یہاں تک محدود نہ رہا بلکہ انھوں نے اپنے آٹھ لوگوں کے قتل میں بھی شوبی کا نام ڈال دیا، پولیس نے شوبی کو گرفتار کر لیا، شوبی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، غلام رسول اس وقت کشمور کے ڈیرہ اڈہ کے ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا، اس کی عمر 13 سال تھی، اس کا خاندان گائوں سے بھاگ گیا اور لوگوں نے اس کے گھر اور زمینوں پر قبضہ کر لیا، یہ جیل میں بھائی سے ملنے گیا، پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اس پر موٹر سائیکل چوری کا مقدمہ بنا دیا۔

یہ تین سال جیل بھگت کر باہر نکلا تو پولیس نے پھر گرفتار کرلیا، تھانے میں تشدد کے دوران اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، اس تشدد نے غلام رسول کو چھوٹو بنا دیا، یہ پولیس کے ہاتھ سے نکل کر مختلف سرداروں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا، یہ حسین بخش مزاری کے پاس بھی رہا، نصراللہ دریشک کی سرپرستی میں بھی رہا، لالہ شیخانہ کے پاس بھی رہا اور یہ سندھ کے مشہور گینگ بابا لونگ کا حصہ بھی رہا،چھوٹو کو جیل کے تین برسوں نے بے شمار نئے دوست دیے، یہ دوست جیل سے رہا ہو کر اس کے ساتھ شامل ہوتے رہے یہاں تک کہ چھوٹو نے اپنا گینگ بنا لیا،یہ گینگ 29 برسوں تک سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں دہشت کی علامت بنا رہا، پولیس اس کا مرغوب ٹارگٹ رہی، یہ لوگ پولیس والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیتے یا پھر انھیں تشدد کے اس مرحلے سے گزارتے جس سے چھوٹو سندھ اور پنجاب کے تھانوں میں گزرتا رہا تھا۔

غلام رسول چھوٹو نے راجن پور اور رحیم یار خان کے درمیان دریائے سندھ کے ایک جزیرے پر قبضہ کر لیا، یہ علاقہ کچا جمال کہلاتا ہے، اسے کچے کا علاقہ بھی کہتے ہیں، یہ نو کلو میٹر لمبا اور اڑھائی کلو میٹر چوڑا خشکی کا ایک ٹکڑا ہے، یہ ٹکڑا چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہوا ہے، چھوٹو گینگ نے اس جزیرے کو اپنی سلطنت بنا لیا، پولیس نے چھوٹو کو پکڑنے کے لیے چھ آپریشن کیے لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکی، پولیس نے کچا جمال کے گرد چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں لیکن سیلاب کے موسم میں جب دریائے سندھ کا پانی چڑھ جاتا تھا اور چوکیوں کا تھانوں سے رابطہ کٹ جاتا تھا تو چھوٹو کے لوگ چوکیوں پر قبضہ کر لیتے تھے یوں سیلاب عوام کے لیے عذاب بن کر نازل ہوتاتھا لیکن یہ چھوٹو گینگ کے لیے سنہری موقع بن جاتا تھا اور یہ لوگ اپنی سلطنت کو ریاست سے دوبارہ چھڑا لیتے تھے۔

علاقے میں ان کا جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک تھا، یہ راجن پور اور رحیم یار خان میں ہونے والی ہر قسم کی ڈویلپمنٹ سے واقف ہوتے تھے، یہ پولیس کی نقل و حرکت سے بھی آگاہ ہوتے تھے، تھانوں اور جیلوں میں بھی ان کے مخبر موجود تھے، یہ گینگ سیاسی اثر ورسوخ بھی رکھتا تھا، علاقے کے لوگ یہ سمجھتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے موجودہ ایم پی اے عاطف مزاری اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی چھوٹو گروپ کے سرپرست اور سہولت کار ہیں، یہ گینگ اغواء برائے تاوان، قتل، ڈکیتی، چوری اور رسہ گیری ہر قسم کے جرم میں ملوث ہے، یہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو بھی پناہ دیتا تھا اور طالبان کے ساتھ بھی ان کے گہرے روابط ہیں، اس کے پاس جدید ترین اسلحے کے ڈھیر لگے ہیں، اس نے کچا جمال اور جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی درجنوں ٹھکانے بنا رکھے ہیں، یہ لوگ مشکل وقتوں میں روپوش ہو جاتے تھے یا پھر دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پناہ لے لیتے تھے، یہ لوگ جدید ترین ’’الیکٹرانک گیجٹس‘‘ کے استعمال سے بھی واقف ہیں۔

پنجاب حکومت نے مارچ میں پوری طاقت کے ساتھ چھوٹو گینگ کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے خود کیا، میاں شہباز شریف شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد پنجاب کے ہوم منسٹر بھی ہیں، یہ پولیس کی پاور بھی کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، میاں شہباز شریف بلاشبہ ان تھک انسان ہیں، یہ دن رات کام کرتے ہیں اور ان کاموں کو وقت پر ختم بھی کرا لیتے ہیں، یہ بھی درست ہے انھوں نے لاہور شہر کا حلیہ بدل کر رکھ دیا، آپ جب کراچی، کوئٹہ یا پشاور سے لاہور میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے، میں ان کے ترقیاتی منصوبوں بالخصوص میٹرو بس، اورنج لائین اور سڑکوں کا قائل ہوں لیکن میاں شہباز شریف میں چند خامیاں بھی ہیں، ان کی سب سے بڑی خامی ٹیم ہے، یہ ٹیم بنانے کی صلاحیت سے محروم ہیں، یہ کام لے سکتے ہیں لیکن کا م کرنے یا کام کرانے والی ٹیم نہیں بنا سکتے چنانچہ جس دن ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اس دن پورے پنجاب کی انتظامیہ بیمار پڑ جاتی ہے، یہ ٹیم کیوں نہیں بنا پاتے؟

اس کی وجہ بہت سادہ ہے! ٹیم بنانے کے لیے دوسروں پر اعتماد ضروری ہوتا ہے اور یہ دوسروں پر اعتمادنہیں کرتے چنانچہ یہ آج تک ٹیم نہیں بنا سکے، پنجاب میں ان کے بعد خلا ہی خلا ہے اور اس خلا کے آخر میں رانا ثناء اللہ آتے ہیں، آپ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے بعد کسی تیسرے وزیر کا نام بتا دیجیے، آپ کو تیسرا نام پنجاب حکومت کی ویب سائیٹ پر بھی دکھائی نہیں دے گا، میاں شہباز شریف کی دوسری بڑی خامی پولیس ہے، میاں صاحب کو پولیس پر یقین نہیں اور پولیس کو میاں صاحب پر اعتماد نہیں، کیوں؟ اس کی وجہ ماڈل ٹائون کا سانحہ ہے، پورا ملک جانتا ہے 17 جون2014ء کو منہاج القرآن کے مرکز پر گولی چلانے کا حکم کس نے دیا لیکن جب 14 لوگ مارے گئے تو پنجاب حکومت نے ذمے داری کی گھنٹی پولیس کے گلے میں باندھ دی، پولیس افسر اور اہلکار نوکریوں سے بھی گئے، یہ سزائوں کے عمل سے بھی گزرے اور یہ بری طرح بدنام بھی ہوئے۔

یہ واقعہ پنجاب پولیس کے لیے خوفناک سبق تھا چنانچہ پولیس اب میاں شہباز شریف کے حکم پر کوئی آپریشن نہیں کرتی اور اگر کرنا پڑ جائے تو اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو 27 مارچ کو ممتاز قادری کے چہلم کے دن نکلا تھا، مظاہرین نے راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف رخ کیا تو کسی پولیس اہلکار نے انھیں نہیں روکا یہاں تک کہ وہ ریڈزون پہنچ گئے اور دوسری مثال چھوٹو گینگ ہے، وزیراعلیٰ کے حکم پر آٹھ اضلاع کی پولیس اکٹھی ہوئی، 28 مارچ کو کچا جمال پہنچی، اس کو دو ہزار جوانوں، بھاری اور جدید اسلحہ، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور سیٹلائیٹ کی سپورٹ حاصل تھی لیکن یہ دو ہزار جوان 80 ڈاکوئو کا مقابلہ نہ کر سکے۔

چھوٹو کی گرفتاری تو رہی ایک طرف ڈاکوئوں نے الٹا سات پولیس اہلکار شہید اور25یرغمال بنا لیے اور یہ وہ ایلیٹ جوان تھے جن پر پنجاب حکومت نے آٹھ برسوں میں اربوں روپے خرچ کیے تھے، کچا جمال میں 22 دنوں سے آپریشن چل رہا ہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور وہ پنجاب حکومت جو کل تک چالیس گز لمبے دعوے کرتے نہیں تھکتی تھی اور جس کا دعویٰ تھا ’’پنجاب میں دہشت گردوں کا کوئی’’ہائیڈ آئوٹ‘‘ اور جرائم پیشہ عناصر کی کوئی جنت نہیں اور پنجاب ملک کا واحد صوبہ ہے جسے فوج اور رینجرز کی ضرورت نہیں،، وہ حکومت ایک ڈاکو سے نبٹنے کے لیے فوج اور رینجرز کی مدد لینے پر مجبور ہوگئی۔

غلام رسول چھوٹو میاں شہباز شریف کے آٹھ سالہ مسلسل اقتدار کا پہلا ٹیسٹ تھا اور پنجاب حکومت اس پہلے ٹیسٹ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، اس ناکامی کا اعتراف آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا بھی کر چکے ہیں، میرا خیال ہے، میاں شہباز شریف کو بھی یہ ناکامی ماننی چاہیے، انھیں تسلیم کرنا چاہیے ان کے ’’آئیڈیل پولیس‘‘ کے تمام دعوے غلط تھے، پولیس کی ٹریننگ بھی جعلی تھی اور ’’پنجاب دہشت گردوں اور جرائم پیشہ سے پاک ہے‘‘ جیسے دعوے بھی جھوٹے تھے، میاں صاحب نے اچھے کمانڈر کی طرح سانحہ ماڈل ٹائون کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی لیکن انھیں ’’مرد‘‘ بن کر کچا جمال میں سات پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور 25یرغمالی اہلکاروں کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے تھی، انھیں اس قسم کی مردانگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس کی توقع یہ عمران خان سے رکھتے ہیں، میاں صاحب کو یہ بھی ماننا چاہیے، یہ آٹھ برسوں میں 10 کروڑ آبادی کے پنجاب سے ایک بھی ایسا شخص تلاش نہیں کر سکے جو وزیراعلیٰ پنجاب سے ہوم منسٹر کا قلم دان لے سکے، یہ جس کے حوالے پنجاب پولیس کر سکیں۔

یہ پانامہ لیکس پر مستعفی نہ ہوں،یہ بے شک اسے اپنے آزاد اور خود مختار بچوں کے کھاتے میں ڈال دیں لیکن یہ کچا جمال میں مرنے والے سات پولیس اہلکاروں کی ذمے داری تو قبول کریں، یہ ان 25 یرغمالی پولیس اہلکاروں کی ذمے داری تو لیں جو ان کی ضد، انا اور خوش فہمی کی بھینٹ چڑھ گئے اور آج جن کی مائیں، جن کی بہنیں اور جن کی بچیاں جھولیاں پھیلا کر بددعائیں دے رہی ہیں، آپ پنجاب کے خادم ہیں، آج آپ کو اپنی خدمت کی ناکامی تسلیم کرنی چاہیے، آپ کو ماننا چاہیے سات پولیس اہلکاروں کا خون آپ اور آپ کے محبوب آئی جی کی گردن پر ہے، آپ کو ماننا چاہیے، آپ عوام کو جان و مال کا تحفظ اور اپنی فورس کو اعتمادنہیں دے سکے اور آپ کو ماننا چاہیے، آپ ایک ناکام کپتان ہیں۔

پیر، 4 اپریل، 2016


کون سا بھٹو، کس کا بھٹو؟  وسعت اللہ خان

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے 38 برس کے دوران جنم لینے والی تیسری نسل کے لیے بھٹو پاکستانی تاریخ کے ایک ذیلی حاشیے، بےنظیر کے والد اور بلاول کے نانا سے زیادہ کچھ نہیں۔

اگر بھٹو ازم تھا بھی تو اب وہ کسی مقدس صندوقچی میں بند ہے جس کا دیدارِ عام پیشہ ور مرثیہ خوان سال میں بس دو دن (پانچ جنوری اور چار اپریل) کرواتا ہے ۔

(جیسے جناح صاحب کی اہمیت اتنی رہ گئی ہے کہ 25 دسمبر کو چھٹی ہوتی ہے اور اقبال کی تو اتنی بھی نہیں رہی)۔

جو سیانے سمجھتے ہیں کہ تاریخی عمل کی گاڑی میں ریورس گئیر نہیں ہوتا، انھیں اپنے مفروضے کی اوقات دیکھنی ہو تو پاکستان سے بہتر مثال کہاں۔

پاکستان کا مولوی بھٹو کی معزولی کے 40 برس بعد بھی 77 جیسی تحریک چلانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اسے بھٹو کی پھانسی کے 38 اور پھانسی دینے والے ضیا الحق کی موت کے 28 برس بعد بھی سیکولر لبرل ڈراؤنے خواب آ رہے ہیں۔ اور اسی بھٹو کے آئین کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے چوبارے سے 38 برس بعد بھی ’جاگدے رہنا ، ساڈہے تے نہ رہنا‘ کے انتباہات بھی تسلسل سے جاری ہو رہے ہیں۔

عام آدمی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اصلی باتصویر مسائل کی جانب دھیان نہیں بھٹکتا اور سائے کے تعاقب کی عادی سیاسی و مذہبی قیادت کا ذہنی کھوکھلا پن بھی سادہ لوح اکثریت سے پوشیدہ رہتا ہے۔

بھٹو کو دنیا سے ہٹانے کے حق میں ایک تاویل یہ پیش کی جاتی تھی کہ اس جیسوں کے ہوتے پاکستان اپنی نظریاتی منزل کبھی حاصل نہ کر پائے گا۔ لیکن پھانسی کے 38 برس بعد بھی کسی ماتھے پر عرقِ ندامت نہیں کہ نام نہاد نظریاتی ٹرے میں سجے بنیادی مسائل ریلے ریس کے ڈنڈے کی طرح لایعنیت کے ٹریک پر بھاگتی ایک نسل سے دوسری نسل کو جوں کے توں تھمانے کے سوا کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
البتہ اتنی پیش رفت ضرور ہوئی کہ وہ پاکستان جو دولختی کے باوجود بھٹو دور تک بطور ایک سخت جان سٹیٹ جانا جاتا تھا، اگلے 38 برس میں یہ پاکستان نان سٹیٹ اور ریل اسٹیٹ ایکٹرز میں بٹ بٹا گیا ۔

38 برس پہلے کی نوجوان نسل کا آئیڈیل بھٹو تھا، 38 برس بعد ممتاز قادری ہے۔ 38 برس پہلے مولوی اپنے پہ بنائے لطیفے بھی خوش دلی سے سنایا کرتا تھا، 38 برس بعد مذہب کے ٹھیکیداروں نے نے سماج کو ہی زندہ لطیفہ بنا ڈالا۔

38 برس پہلے باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ خطِ مستقیم میں سفر کرنے کی عادی تھی، آج گول گول گھوم کے تھکنا سفر کہلاتا ہے۔

رہے بھٹو کے گدی نشین، تو ان کے لیے بھٹو کوئی شخصیت نہیں ایک ٹکسال ہے جو 24 گھنٹے چلنے کے باوجود مالی و اقتداری شکم کی آگ بجھانے میں ناکام ہے۔

بھٹو کا دوسرا نام کئی برس سے ’چلو چلو لاڑکانہ چلو‘ پڑ چکا ہے۔ بھٹو سالگرہ کے کیک اور برسی کی بریانی میں پایا جاتا ہے۔ بھٹو کہنہ سال پیپلز فورٹ میں مقید نکمے شہزادوں کی سیاسی پنشن بک ہے۔ بھٹو پیپلز پارٹی کے میوزیم میں سجا مجسمہ ہے جیسے لاہور میوزیم میں فاسٹنگ بدھا۔

اچھا ہوا بھٹو کو 38 برس پہلے پھانسی لگ گئی۔ کم ازکم یہ تو معلوم ہے کس نے لٹکایا۔ بھٹو کی بیٹی کو تو قاتل کا نام جاننے کی لگژری بھی نصیب نہ ہو سکی۔

ان 38 برسوں میں بتدریج ذہنی ٹریجڈی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوئی جو آج گلی گلی کھلے بالوں گھوم رہی ہے ’میں زندہ ہوں ، میں زندہ ہوں۔‘ کوئی نہیں جو اسے ایدھی شیلٹر ہوم کا راستہ ہی سجھا دے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

جمعہ، 25 مارچ، 2016

درد کے وہ 9 اقسام جن کا براہ راست تعلق مختلف جذباتی کیفیات سے ہوتا، یا اِن وجوہات کی وجہ سے ہوتے ہیں

تحریر ابوالحسنین
اگر جسم کے کسی حصے میں درد ہوتا ہے تو اس کا احساس پورے جسم کو ہوتا ہے اور جسم کے ایک حصے کے درد کو لیکر آپ کسی طرح سے بھی آرام سے نہیں رہ سکتے اگرچہ کہ آپ کے جسم کا 99 فیصد حصہ درست ہی کیوں نہ ہو۔ذیل میں درد کے 9 ایسے اقسام ہیں اِن وجوہات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

’’سر میں درد‘‘ سر درد دن بھر کے ذہنی دبائو یا رات میں پوری نیند نہ سونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ 

’’گردن میں درد‘‘ تحقیق سےیہ بات سامنے آئی ہے کہ گردن میں درد کی وجہ دوسروں یا اپنے آپ کو معاف کردینے میں دقت یا ہچکچاہٹ ہوسکتی ہے۔ 

’’کندھوں میں درد ‘‘ کندھوں میں درد کی وجہ اس بات کی نشاندہی کرتاہے آپ اپنے اندر بھاری جذباتی بوجھ لئے ہوئے ہیں۔

’’اوپری پیٹھ میں درد‘‘ اس درد کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کو بھرپور جذباتی حمایت حاصل نہیں ہے ۔

’’پیٹھ کے نچلے حصے میں درد‘‘ اس درد کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ پیسوں اور اخراجات کے بارے میں فکر مند ہیں۔

’’کوہنیوں میں درد‘‘ کوہنیوں میں درد کا مطلب ہے کہ آپ کی زندگی میں تبدیلی کی مزاحمت ہورہی ہے۔

’’ہاتھوں میں درد‘‘ ہاتھوں میں درد کا مطلب ہے کہ دوسروں تک اس طرح سے نہیں پہنچ پاتے ہیں جس طرح کے ہونا چاہئے ۔

’’کولہوں میں درد‘‘ کا مطلب ہے کہ آپ کو گھومنے پھیرنے سے ڈر لگتا ہے۔

’’ گھٹنوں میں درد‘‘ یہ اس بات کی نشانی ہوسکتی ہے کہ آپ کے اندر انا کافی زیادہ ہے اور آپ خود کو کچھ زیادہ ہی پہنچی ہوئی چیز سمجھتے ہو۔


جمعہ، 4 مارچ، 2016

ایم کیو ایم کیسے ٹوٹے گی؟ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو


دنیا میں جو بھی جماعتیں یا گروہ کسی ایک شخص یا نظریے کے گرد گھومتی ہیں انھیں باہر سے توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

جیسے ہی بیرونی چوٹ پڑتی ہے جماعت اپنے اکلوتے رہنما یا نظریے سے مزید چمٹ جاتی ہے اور کچھوے کی طرح گردن اندر کر کے دفاعی انداز اختیار کر لیتی ہے، اور جیسے ہی حملہ ختم ہوتا ہے گردن باہر نکال لیتی ہے۔ اگر ایسی جماعت یا گروہ کو کیچوے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر بھی دیا جائے تو ہر ٹکڑا الگ الگ کیچوا بن جاتا ہے۔

بیرونی مثالیں دیکھنی ہوں تو افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کو لے لیجیے۔ جنوبی افریقہ کی گوری اقلیتی حکومت نے اے این سی کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے مگر اے این سی میں نیلسن منڈیلا کی شخصیت کے سبب شگاف نہ پڑ سکا۔اگر منڈیلا کو ہلاک کر دیا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ ونی منڈیلا اسے نہ سنبھال پاتیں اور اے این سی سیاسی جد و جہد اور مسلح جد و جہد کے حامیوں میں بٹ جاتی۔

جو جماعتیں کسی خاص شخصیت کی بجائے کسی نظریے سے جڑی ہوتی ہیں انھیں باہر سے توڑنا کتنا محال ہے اس کی ایک مثال اخوان المسلمون ہے۔ سنہ 1928 میں اپنی تاسیس سے آج تک یہ جماعت عرب دنیا میں مسلسل متشدد خارجی دباؤ کا شکار ہے مگر کوئی عرب حکومت اسے کلیتاً ختم نہ کر پائی اور اخوان کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ سیاسی طور پر ابھر آتے ہیں۔

اس تناظر میں پاکستان کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ حصے بخرے مسلم لیگ کے ہوئے، کیونکہ پاکستان بننے کے بعد یہ نہ تو کوئی ٹھوس نظریاتی جماعت رہی اور نہ ہی محمد علی جناح کے بعد کسی ایک شخصیت کے مدار میں رہی۔

اس کے برعکس نیشنل عوامی پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی سرخ پوش دنوں سے ہی شخصیت پرستی اور نظریے کو ساتھ لے کر چلتی رہی۔ یعنی باچا خان کا نظریہ اور باچا خان کا خاندان۔ چنانچہ متعدد بار پابندی لگنے یا کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود وہ آج بھی اپنا سیاسی کردار ادا کر رہی ہے۔


عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمان سے پہلے تک شخصیت پرست نہیں تھی اور نہ ہی شدید قوم پرست۔ مگر اگرتلہ سازش کیس کے بعد سے شیخ مجیب اور عوامی لیگ اور بنگالی نیشنل ازم لازم و ملزوم ہوگئے۔ انتخابات جیتنے کے بعد بھی جب اسٹیبلشمنٹ نے عوامی لیگ کو ہر حربے سے دبانے کی کوشش کی تو پارٹی کے اندر جو طبقہ مجیب کی انتہا پسندی ایک خاص حد تک آگے جانے کا مخالف تھا وہ مجیب سے بھی زیادہ انتہاپسند ہو گیا اور پھر طاقت کے زور پر عوامی دریا کا رخ اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کا انجام سب نے دیکھ لیا۔

پیپلز پارٹی روزِ اول ہی سے ذوالفقار علی بھٹو کا دوسرا نام تھی۔ پارٹی اقتدار میں نہیں تھی تب بھی بھٹو ہی تھا، اقتدار میں آئی تب بھی بھٹو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بنے رہے۔ ان کی سخت گرفت کے ہوتے پارٹی میں گروہ بندی ممکن نہیں تھی۔ احمد رضا قصوری اور غلام مصطفی کھر بھی پارٹی سے علیحدہ ہو کر کچھ نہ کر سکے۔


اگر جنرل ضیا کا خیال تھا کہ بھٹو کے منظر سے ہٹتے ہی پارٹی بھی ٹوٹ جائے گی تو یہ صرف اس صورت میں ممکن تھا اگر بےنظیر بھٹو اور نصرت بھٹو سامنے نہ ہوتیں۔ چنانچہ ایک عام کارکن کے اندر بھٹو کے بعد کوئی سیاسی کنفیوژن پیدا نہیں ہوا۔ اس کے لیے بھٹو کی روح ماں اور بیٹی میں خود بخود منتقل ہوگئی اور کوثر نیازی کی پروگریسو پیپلز پارٹی، غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اور بہت بعد میں فیصل صالح حیات کی پی پی پی پیٹریاٹ کی بھٹو خاندان کے سامنے ذرا بھی دال نہ گل سکی۔

اگر پیپلز پارٹی کمزور ہوئی بھی تو بےنظیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد اپنی اندرونی بے اعتدالیوں کے سبب۔ چنانچہ آج کی پیپلز پارٹی صرف اپنی وجہ سے صوبہ سندھ میں قید ہے کسی بیرونی جبر کے سبب نہیں۔

ایم کیو ایم روزِ اول سے الطاف حسین کا دوسرا نام اور شخصیت پرستی کے اعتبار سے یہ پاکستان کی سب سے قابلِ ذکر جماعت ہے۔ تین آپریشن اسے باہر سے ختم نہیں کر سکے۔ عظیم احمد طارق، آفاق احمد، جناح پور، را کے ایجنٹ، عمران فاروق قتل کیس، منی لانڈرنگ اور بھتہ گیری سمیت سب طرح کے حالات و واقعات و شخصیات و الزامات کے باوجود ایم کیو ایم کا ووٹ بینک جوں کا توں ہے۔ پارٹی کا ڈھانچہ ایسا لچکدار ہے کہ آپریشنوں کے دوران وقتی طور پر تو یہ دب جاتی ہے لیکن جیسے ہی دباؤ کم ہوتا ہے پھر سے ابھر آتی ہے۔

اب مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی صورت میں ایک اور کوشش زیرِ تعمیر ہے۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ ووٹ بینک کیسے ٹوٹے گا؟ فی الحال اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

الطاف حسین کے منظر سے ہٹنے کے بعد عین ممکن ہے کہ ایم کیو ایم میں نظریاتی اور سٹرکچرل تبدیلیاں آئیں، ہو سکتا ہے یہ پارٹی ایک سے زائد دھڑوں میں بٹ جائے، مگر جو بھی اچھا برا نتیجہ برآمد ہوگا پارٹی کے اندر سے ہی ہوگا، پیراشوٹی کوششوں سے نہیں ہوگا۔

شاید اس بار بھی ایم کیو ایم کا قبلہ درست کرنے کے معاملے میں جلد بازی دکھا دی گئی ہے۔

بدھ، 24 فروری، 2016

کیا ارب پتی زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں؟




کیا ارب پتی افراد اپنے مالی معاملات کی طرح پڑھائی میں بھی اچھے ہوتے ہیں؟ یا امکانی طور پر وہ پہلا موقع ملتے ہی سکول سے فرار ہوجاتے ہیں اور اپنی قسمت بنانے کے لیے اپنے طریقے سے کام کرتے ہیں؟

کیا وہ گریجویٹ ہوتے ہیں یا کاروبار کی باقاعدہ شروعات کے لیے یونیورسٹی جانا ترک کردیتے ہیں؟

ارب پتی افراد کی اولین صف کے تعلیمی پسِ منظر پر ایک تجزیے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اوسط کے مقابلے اِن میں سے زیادہ افراد یونیورسٹی گئے ہیں۔ اور کوئی بھی سند نہ لینے کے بجائے اُن کے پوسٹ گریجویٹ سند حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

یہ تجزیہ خودآموز کاروباری تنظیم کاروں کی شبیہ کی زیادہ ترجمانی نہیں کرتا جو اعلیٰ تعلیم کے بجائے اپنی عقل اور صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔

انشورنس کمپنی گو کمپیئر نے گذشتہ 20 برس کے دوران فوربس میگزین کے ٹاپ 100 ارب پتیوں کی فہرست میں شامل افراد کی سکول کے بعد کی تعلیم کے متعلق جانچ کی ہے۔

اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ارب پتیوں میں سے 76 فی صد کے پاس سند ہے۔ اُن میں سے 47 فی صد کے پاس گریجویشن کی سند ہے، 23 فی صد کے پاس ماسٹرز کی جبکہ چھ فی صد کے پاس ڈاکٹریٹ کی سند ہے۔

سب سے زیادہ مقبول مضامین میں معاشیات اور انجینیئرنگ سے متعلق کورسز شامل تھے۔ جبکہ کافی تعداد میں ایسے تھے جو آرٹس یا ہیومینیٹیز (وہ علوم جس میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل رہے مثلا ادب، تاریخ، فلسفہ، لسانیات وغیرہ) کے مقابلے میں سائنس پڑھ رہے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان امیر ارب پتیوں میں سے ایک چوتھائی کے قریب ایسے ہیں جو کبھی یونیورسٹی میں داخل ہی نہیں ہوئے یا اُنھوں نے گریجویشن سے قبل ہی یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔

امریکہ کی بالغ آبادی سے موازنہ کیا جائے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام آبادی کے مقابلے میں اِن ارب پتیوں میں سے 68 فی صد کے بیچلرز کی سند رکھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اور ارب پتی افراد کے پوسٹ گریجویٹ سند حاصل کرنے کے امکانات تین گُنا زیادہ ہیں۔

جبکہ 61 فی صد ارب پتیوں کے کوئی بھی سند نہ رکھنے کے امکانات ایک عام امریکی بالغ شخص کے مقابلے میں کم ہیں۔

عالمی سطح کے امیر ترین افراد کے تعلیمی مراکز کی اقسام میں مقامی کالجوں کے بجائے اشرافیہ کے تعلیمی ادارے شامل ہیں۔

امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جس کا نام ارب پتی افراد کی سی وی پر زیادہ تر درج ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ ہاورڈ بزنس سکول بھی مقبول ہے۔

جبکہ اس فہرست میں موجود ایک بہت مشہور نام، بل گیٹس ہے جنھوں نے تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی ہاورڈ یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔

روسی دولت میں اضافے کا عکاس شہر ماسکو، اِن ارب پتیوں کے لیے بہت زیادہ مقبول یونیورسٹیوں والا شہر ہے جس میں ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی اور ماسکو کے اہم اداروں کی ایک وسیع تعداد شامل ہے۔

کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی اور ٹیکنالوجی کے میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ارب پتی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے نقطہ آغاز بن گئے ہیں۔ گوگل کے سرگی بِرن نے سٹینفورڈ یونیورسٹی نے پوسٹ گریجویٹ کی سند حاصل کی تھی۔

برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں، لندن سکول آف اکنامکس اور کیمبرج ایسی یونیورسٹیاں ہیں جن میں فہرست میں شامل بہت سے ارب پتی افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کو میڈیا کمپنی نیوز کارپوریشن کے مالک اور معروف میڈیا مغل روپرٹ مرڈوک کو تعلیم دینے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ فرانس کی ایکول پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے پُرانے طلبا میں سب سے زیادہ ارب پتی افراد شامل ہیں۔

بھارتی ارب پتیوں نے ممبئی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور بھارتی نژاد سٹیل کے تاجر لکشمی متّل نے کلکتہ یونیورسٹی کے سینٹ زیویئرز کالج سے تعلیم حاصل کی۔

اس تحقیق سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ارب پتی افراد پہلے غریب تھے جن کو یونیورسٹی میں تعلیم کے ذریعے وسیع مواقع ملے یا اُن میں سے کتنے ارب پتیوں کے بچے تھے۔

تجزیے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ٹاپ 100 ارب پتی افراد کی اوسط عمر 61 سال کے قریب ہے۔ اور امریکہ کی عام بالغ آبادی کے مقابلے میں اِن میں سے زیادہ تر شادی شدہ ہیں۔

یہ تجزیہ بہت زیادہ امیر افراد پر مشتمل ہے، وہ جو کہ ارب پتی افراد کی فہرست میں سب سے اُوپر ہیں۔ لیکن عام ارب پتی افراد کی جامعات کے متعلق بھی ماضی میں سروے کیے جاچکے ہیں۔

سوئس بینکنگ گروپ اور سنگاپُور کی مالیاتی انٹیلیجنس فرم، دا ویلتھ ایکس اور یو بی ایس بلینیئر سینسس کے 2300 ارب پتی افراد پر کیے جانے والے سروے میں بھی گریجویٹس کی کثیر تعداد ملتی ہے۔

ہارورڈ، ییل، جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی، پرنسٹن، کارنیل اور سٹینفورڈ یونیورسٹی کی طرح پنسلوانیا یونیورسٹی نے بھی اچھے خاصے ارب پتی افراد پیدا کیے۔

لیکن ایک بار پھر برطانیہ کے اداروں میں لندن سکول آف اکنامکس ہی ہے جس نے سب سے زیادہ ارب پتی افراد پیدا کیے ہیں۔


اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ جتنے زیادہ افراد یونیورسٹی گئے اُتنا ہی اُن فرسٹ کلاس اور اپر سیکنڈ کلاس سند کے حامل افراد نے اپنےکاروبار میں وسیع مالی فائدہ حاصل کیا۔

سوٹن ٹرسٹ جو سماجی حرکت پذیری اور یونیورسٹی تک منصفانہ رسائی کو فروغ دیتا ہے، اس کے چیئرمین سر پیٹر لیمپل کا کہنا ہے: ’اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ دنیا کے زیادہ تر امیر ترین افراد نے سب سے اُونچے درجے کی جامعات سے پوسٹ گریجویٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مالیاتی مواقع اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے حامل افراد کو ملنے والے مواقع ناصرف مالی طور پر مستحکم افراد کو بلکہ کسی بھی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے ذہین افراد کو بھی یکساں ملنے چاہییں۔‘

مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں