بلاگ / بلاگز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بلاگ / بلاگز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 2 جون، 2016

صبا پکڑی گئی، جی ہاں ہسپتال والی ’صبا‘ بلا آخر پکڑی گئی


بلاگر ابوالحسنین : آپ کے پاس اکثر ایسے مسیجز آتے ہونگے جن کو پڑھ کر آپ کے دل انسان ہونے کے ناطے جذبہ خدمت جاگ گیا ہو۔ دل چاہ رہا ہو کہ اس بیچاری کی مدد کی جائے۔  کیونکہ مسیجز ہی کچھ ایسے لکھے ہوتے ہیں ’’پلیز آپ میرے اس نمبر  0345XX154541 پر 50 کا ٹیلی نارکا ایزی لوڈ کروادیں میں بہت مشکل میں ہوں، بعد میں واپس کردوںگی۔ صبا‘‘  یا       ’’پلیز آپ کو خدا و قرآن کا واسطہ ہے میرے اس نمبر پر 0300XXX12154 پر 50 کا جاز لوڈ کریں میں بہت پریشانی میں ہوں آپ مجھے جانتے ہو۔ کال می۔ صبا ‘‘   یا   ’’ میری امی ہسپتال میں ہے۔ میں بہت پریشان ہوں مجھے ضروری کال کرنی ہے۔ پلیز میرے اس نمبر 0300XXX12154 پر ایزی لوڈ کردیں، بعد میں واپس کردوں گی۔ صبا‘‘

ایسے مسیج پڑھ کر بعض درد دل رکھنے والے حضرات اکثر اُن کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور 50 کی جگہ 100 یا اس سے بھی زیادہ کا بیلینس بھی بھیج دیتے ہیں۔ اور ایسے بھے لڑکے ہوتے ہیں جو پہلے فون کرتے ہیں یہ کانفرم کرنے کے لئے کہ واقعی میں لڑکی ہے۔ لڑکی کی آواز میں دو چار دوستی کی باتیں سن کر جیپ بھی خالی کردیتے ہیں۔ 

میرے کچھ دوستوں نے تفریح کے لئے ایک تجربہ کیا۔ اتفاق سے ان میں سے ایک لڑکی کی آواز میں ایسی باتیں کرتا کہ کوئی نہ پہچان سکے کہ یہ لڑکا ہے۔  اپنے ہی دوست کو دو چار مس کالیں دیں تو اس کے مسیج آنے شروع ہوئے، ادھر سیانے نے نام لڑکی والا لکھ کر بھیجا۔ پھر تو لڑکا پاگل سا ہوگیا۔ فوراً فون کیا۔ ادھر نقلی لڑکی نے لڑکیوں والی آواز میں دوستی کی ایسی باتیں کیں کہ لڑکا ملنے کو ترس گیا۔ لڑکے کو جگہ بتا دی گئی کہ یہاں پر آجاو۔ اور مزہ لینے کے لئے بلڈنگ کے اوپر سے دیکھنے لگے۔  دیکھا تو لڑکا بھاگا بھاگا آرہا ہے۔ ادھرے لڑکے بھی فون پر بات چیت جاری رکھتے ہوئے دیئے ہوئے مقام پر پہنچ گئے۔ لڑکے کا فون کان میں ہی لگا پڑا ہے۔ جلدی جلدی میں رش والی سڑک بھی عبور کی  اور پسینہ پسینہ ہوکر مجوزہ جگہ پر پہنچا تو لڑکی کی جگہ شرمندگی اور قہقہوں نے اس کا خوب استقبال کیا۔ 

تو دوستو! دوستی ایسی نہیں ہوتی۔ بن دیکھے، بنا ملے کوئی کسی کی دوست نہیں ہوسکتی۔  تو ایسے میسیجز پر زیادہ توجہ نہ دیں۔ اور درجہ ذیل ویڈیو دیکھیں  سب سمجھ میں آجائے گا۔



Hosptal wali Saba pakri gayee by myvoicetv

منگل، 5 اپریل، 2016

ڈینگی جان بھی لے سکتی ہے، ڈینگی سے بچنے کے طریقے اپنائیے اور ڈینگی سے محفوظ رہئے



ڈینگی ایک خطرناک بیماری ہے۔ ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس مچھر کے کاٹنے کے 3 یا 4 روز بعد ڈینگی کے اثرات نمودار ہوتے ہیں۔ ابتدائی علامات میں تیز بخار، سردرد، الٹی، پٹھوں اور جوڑوں میں درد اورخاص طور پر جسم میں سرخ دانوں کا نکل آنا ہیں۔ اس بیماری سے صحت یابی میں عموماً کم سے کم 2 اور زیادہ سے زیادہ 7 دن لگتے ہیں۔

اس بیماری کا اگر وقت پر تشخیص اور علاج نہ ہوجائے تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ اس اسٹیج پر جسم کے مختلف حصوں جیسے ناک اور دانوں سے خون کا رسنا ، خون کے سفید خلیوں کا کم ترین سطح پر چلے جانا اورخون میں موجود پیلے رنگ کے مادے کا رسائو، بلڈ پریشر کم ترین سطح پر جانا خطرے کی علامات ہیں۔ 

اس لئے پاکستان کو ڈینگی سے پاک کرنے کے لئے شروع کی جانے والی مہم ’ڈینگی سے پاک پاکستان‘ کے تحت مورٹین نے نچلی سطح سے سرگرمیاں شروع کردی ہے۔ مہم میں نچلی سطح تک لوگوں کو ڈینگی سے بچائو کے طریقہ کارسے آگاہ کیا جائے گا۔  اور لوگوں کو ڈینگی سے محفوظ رہنے کے لئے 4 اہم طریقوں کو اپنانے پر زور دیا جائےگا ۔


ڈینگی سے محفوظ رہنے کے لئے 4 اہم طریقے یہ ہیں

  1. برتنوں اور ٹینکی میں موجود پانی کو ڈھک کررکھیں۔ گھروں کے آس پاس ڈھلانوں میں موجود پانی کو صاف کریں۔
  2. اردو گرد کے ماحول کو صاف رکھیں۔ کچرا دانوں کو باقاعدگی سے خالی کردیا کریں۔
  3. ڈینگی مچھروں سے بچائو کے لئے ڈینگی کے بچائو والی مصنوعات استعمال کریں۔ مثلاً مورٹین اسپرے، مورٹین کوائل، مورٹین نائیٹ زیپر وغیرہ
  4. ان طریقوں کو استعمال کرنے کے لئے دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ تاکہ ڈینگی سے پاک پاکستان ممکن ہوسکے۔


سندھ اور پنجاب حکومتوں کے تعاون سے مارٹین کی جاری ’ڈینگی سے پاک پاکستان‘ مہم کے سلسلے میں کراچی میں صفائی کے دوران لوگوں کو ڈینگی سے بچاﺅ سے متعلق حفاظتی اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ اس مہم کو قومی سطح پر چلایا جائے گا اور پاکستان کو ڈینگی سے پاک کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گے۔

بلاگر افسر خان، کراچی

ہفتہ، 2 اپریل، 2016

سال 2025 تک ہر 5 میں سے ایک فرد موٹاپے کا شکار ہوگا: سروے رپورٹ



تحریرابوالحسنین اردو وائس پاکستان 03 اپریل 2016

سال 2014 میں 5 بلین بالع افراد میں سے 641 ملین افراد موٹاپے کا شکار پائے گئے۔ اور یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو سال 2025 تک یہ تعداد 1.1 بلین افراد سے تجاوز کر جائے گی۔ حال ہی میں جاری ہونے والے سروے میں کہا گیا ہے کہ 2025 تک ہر 5 میں سے ایک بالغ فرد موٹاپے کا شکار ہوگا۔ اس سروے میں بچوں کو شامل نہیں کیا گیا  ہے۔ سروے نے خبر دار کیا ہے کہ موٹاپے کی بیماری تیزی کے ساتھ وبائی مرض کی شکل اختیار کررہی ہے، جس کے فرد کی صحت اور معاشی حالت پر برے اثرات مرتب ہونگے۔ 

بالغ افراد کے موٹاپے کا شکار ہونے کا رجحان 40 سالوں میں دُگنے سے بھی زیادہ ہوگیا ہے ۔ اور آئندہ 9 سالوں کے اندر یہ رجحان مزید بڑھنے کا حدشہ ہے۔ دی لینسیٹ میڈیکل جرنل کی جانب سے شائع ہونے والی تحقیق میں امپیریل کالج لندن کے مصنف ماجد ایزیتی نے کہا کہ ’’ اس بیماری کے صحت سے متعلق بھیانک اثرات ہوسکتے ہیں جو ہم نہیں جانتے‘‘ موٹاپا اور خاص طور پر بھاری بھرکم موٹاپا اور شکل بگاڑ دینے والا موٹا پا اعظاء اور عضویاتی نشونما کو متاثر کرتے ہیں۔ 

ان میں سے کچھ یعنی جسم میں بڑھتے ہوئے کولیسٹرول یا بلند فشارخون کا ہم دوائوں سے علاج کرسکتے ہیں لیکن بشمول ذیابیطس دیگر بہت سوں کے لئے ہمارے پاس موثر علاج نہیں ہوتا۔ لوگ وزن کے مختلف زمروں میں آتے ہیں ۔ بوڈی ماس انڈیکس ( بی ایم آئی) کی بنسبت وزن زیادہ ہوجاتا ہے۔

ایک صحت مند بی ایم آئی کا رینج 18.5 سے 24.9 ہوتا ہے ۔ 18.5 سے کم وزن والے کو کمزور اور 25 سے زیادہ کو زیادہ وزن کا حامل سمجھا جاتا ہے اور 30 سے زیادہ کو موٹاپے کا شکار تصور کیا جاتا ہے۔ بی ایم آئی جب 30 سے اوپر جاتا ہے تو ذیابیطس ، اسٹروک، دل کے امراض اورکیسنر جیسے موذی مرض کے لاحق ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔

 بی ایم آئی 35 کو بہت زیادہ موٹاپا اور 40 یا اس سے زیادہ خطرناک اور بگڑی شکل کا موٹاپا ہوتا ہے ۔ اس حالت میں انسان چلنے پھرنے سے بھی معزو ر ہوجاتا ہے۔


جمعہ، 25 مارچ، 2016

درد کے وہ 9 اقسام جن کا براہ راست تعلق مختلف جذباتی کیفیات سے ہوتا، یا اِن وجوہات کی وجہ سے ہوتے ہیں

تحریر ابوالحسنین
اگر جسم کے کسی حصے میں درد ہوتا ہے تو اس کا احساس پورے جسم کو ہوتا ہے اور جسم کے ایک حصے کے درد کو لیکر آپ کسی طرح سے بھی آرام سے نہیں رہ سکتے اگرچہ کہ آپ کے جسم کا 99 فیصد حصہ درست ہی کیوں نہ ہو۔ذیل میں درد کے 9 ایسے اقسام ہیں اِن وجوہات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

’’سر میں درد‘‘ سر درد دن بھر کے ذہنی دبائو یا رات میں پوری نیند نہ سونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ 

’’گردن میں درد‘‘ تحقیق سےیہ بات سامنے آئی ہے کہ گردن میں درد کی وجہ دوسروں یا اپنے آپ کو معاف کردینے میں دقت یا ہچکچاہٹ ہوسکتی ہے۔ 

’’کندھوں میں درد ‘‘ کندھوں میں درد کی وجہ اس بات کی نشاندہی کرتاہے آپ اپنے اندر بھاری جذباتی بوجھ لئے ہوئے ہیں۔

’’اوپری پیٹھ میں درد‘‘ اس درد کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کو بھرپور جذباتی حمایت حاصل نہیں ہے ۔

’’پیٹھ کے نچلے حصے میں درد‘‘ اس درد کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ پیسوں اور اخراجات کے بارے میں فکر مند ہیں۔

’’کوہنیوں میں درد‘‘ کوہنیوں میں درد کا مطلب ہے کہ آپ کی زندگی میں تبدیلی کی مزاحمت ہورہی ہے۔

’’ہاتھوں میں درد‘‘ ہاتھوں میں درد کا مطلب ہے کہ دوسروں تک اس طرح سے نہیں پہنچ پاتے ہیں جس طرح کے ہونا چاہئے ۔

’’کولہوں میں درد‘‘ کا مطلب ہے کہ آپ کو گھومنے پھیرنے سے ڈر لگتا ہے۔

’’ گھٹنوں میں درد‘‘ یہ اس بات کی نشانی ہوسکتی ہے کہ آپ کے اندر انا کافی زیادہ ہے اور آپ خود کو کچھ زیادہ ہی پہنچی ہوئی چیز سمجھتے ہو۔


جمعرات، 24 مارچ، 2016

مارننگ شوز؟ یا بے حیائی کا راج؟

مارننگ شوز؟ یا بے حیائی کا راج؟

بلاگ محفوظ علیم


پاکستا ن ایک اسلا می ملک ہے، پا کستان کی بنےا د اسلام کے بنیا دی رکن کے مطا بق رکھی گئی، جسے مسلما نوں نے انتہائی جدوجہد اور قربا نیو ں کے بعد حا صل کیا ، اور ہہ پاکستان ہی ہے جہاں مسلمان کم از کم اپنی زندگی بنا کسی مداخلت کے اسلا می قوا نین کے مطا بق گزار سکتا ہے۔ 

آج کل ہر طرف مسلما نوں کے اندر لبرل ہو نے کا بھوت سوا رہے ، اور ہر طرف سننے میں آتا ہے کہ دنیا سے قدم ملا کے چلنا ہے، اس فتور کو سب سے زیا دہ بھڑکانے وا لا ہمارا میڈیا ہے۔ سارا دن غیر ملکی غیر مذہبی پروگرامز دکھا دکھاکر لو گوں کے ذہنوں کو خراب کر رہا ہے، نا چ گا نے، ہو لی اور دیوالی کی رسمیں ویلنٹائن ڈے کی کوریج ، انڈین گانے اورفلموں کی کو ریج کے سا تھ ساتھ آج کل ما رننگ شوز کا بخار ہر چینل پے سوار ہے، ایسا لگتا ہے کہ ما رننگ شوز کے بناء چینلز کی کو ئی حقیقت ہی نہیں۔ 



ان ہی ریٹنگ کے چکر میں ہر چینلز پر مارننگ شو ز میں طرح طرح کے ڈرامہ ، اور بے حیائی ہو رہی ہے، کبھی شادی بیاہ کے نا م پر ناچ گانا ، مرد اور خوا تین ایک دوسرے کے ساتھ ڈانس کر رہی ہیں ، پردہ جو مو من عورت کا زیور ہے پردہ تو دور کی بات دوپٹہ تک نہیں ہے۔ 

مختلف جلدی ڈاکٹرز کو بلایا جاتا ہے جو خواتین کے جلدی بیماریوں کا علا ج کر تے ہیں ، مرد حضرات جو اپنے آپ کو میک اپ آرٹسٹ کہتے ہیں خواتین کو میک اپ کررہے ہیں ۔ 

قرآن کے سورہ النور آیت نمبر 30 میں ہے:

(مسلمان مردوں سے کہ دو کہ اپنی نگا ہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفا ظت رکھیں ، یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے۔ لو گ جو کچھ کریں اﷲ تعا لیٰ سب سے با خبر ہیں ۔ اور مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگا ہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی ذینت کو ظاہر نہ کریں )

کیا یہ آیت کافی نہیں ہے ان بیحیائی پھیلانے والوں کے لئے ۔

شرم و حیاء ایک ایسی فطری اور بنیادی صفت ہے جو انسان کی سیرت و کردار کو بنا نے میں بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ یہی انسان کو بہت سے برے کا موں اور بری با تو ں سے روکتی ہے اور اچھے اور شریفانہ کامو ں کے لئے انسا ن کو آمادہ کرتی ہے اس طرح شر م و حیاءانسا ن کی بہت سی خوبیوں کی جڑ اور بہت سای برا ئیائیوں سے اس کو بچانے وا لی ہے۔ 

حیاءاسلا م کے طریقوں میں سے ہے ،حیا ءاور ایما ن میں ایک خاص تعلق اور رشتہ ہے، اسی لئے حیاء کو ایمان کی ایک شاخ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا پھل جنت ہے اس کے مقا بلے میں بے حیائی اور بے شرمی دوزخ میں لے جانے والی چیزیں ہیں ۔ ایمان والی عورتوں کا زیور سونا چاندی نہیں بلکہ حیاء ہے۔

بات ابھی یہا ں ختم نہیں ہوئی ، اب تو مارننگ شو ز میں ایسے ڈاکٹرز بھی آتے ہیں جو اپنے آپکو بے اولا د ی کے علا ج کا ما ہر کہتے ہیں، اور خو اتین اپنی ازدوا جی زندگی کو آن ایئر فون پر ڈسکس کرکے ان سے علا ج کا پو چھ رہی ہیں اور فون کا لز پر آپ کو علا ج بھی بتا تے ہیں، کبھی جنوں بھوتوں کا علاج کر ہے ہیں تو کبھی ناچ گانے کی محفل سجی ہے پس یہ کہ جتنی زیا دہ بے حیائی ہوگی اتنی ہی زیا دہ ریٹنگ بڑھے گی۔

ان سب کے ذمہ دار صرف چینلز وا لے ہی نہیں ہیں ہم خود بھی ہیں ہمارے نا ظرین پسند فرما تے ہیں تو وہ اس طرح کی چیزیں دکھا تے ہیں، خدارا اپنے اعمال کو بہتر بنائیں، ہر طرح کی بے حیائی اور بری چیزوں سے خود بھی بچیں اپنے گھر والوں کو بھی پرہیز کرنے کی سختی سے ہدایت کریں۔ جتنا ہو سکے گناہوں سے بچیں اگر کسی بری چیز کو آپ روک نہیں سکتے تو کم ازکم اپنے حد تک تو اس کا با ئیکاٹ کریں اور برا جا نیں اور اپنے آپ کو نبی پا ک ﷺ کا امتی ہو نے کا ثبو ت دیں۔ اﷲ ہم سب کے ایما ن کی حفا ظت فر ما ئے۔




اتوار، 20 مارچ، 2016

نوروز کیا ہے؟ نوروز کیا پیغام لیکر آتا ہے؟


نوروز کیا ہے؟ نوروز کیا پیغام لیکر آتا ہے؟

تحریر ابوالحسنین

فارسی زبان کا یہ لفظ ’نوروز‘ جس کا معنی ہے ’’نیا دن‘‘۔ کہنے کو تو ایک لفظ ہے مگراپنے اندر بڑا مفہوم رکھتا ہے۔ نوروز دراصل نئے سال اور موسم بہار کے استقبال کا ایک خاص دن ہے۔ اور اس دن کو نہ صرف پاکستان کے شمالی علاقوں میں منایا جاتاہے بلکہ مغربی چین سے ترکی تک، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیستان کے علاوہ بھارت کے کچھ حصوں سمیت عراق کے کچھ حصوں میں کروڑوں لوگ مناتے ہیں۔ 

مارچ کے مہینے میں مردہ زمین پھر سے زندہ ہوجاتی ہے اور اس پر نباتات اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ درخت و نباتات پھر سے زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ بے جان زمین ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹتی ہے۔ یہاں تک کہ سردی سے مرجھائے چہروں پر بھی رونق نمودار ہوتی ہے۔ جانوروں اور نباتات کے ساتھ ساتھ انسان بھی موسم بہار کے آتے ہی خوشگوار کیفیت میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ چہروں پر رونق اور تروتازگی آتی ہے۔ 

اب بتائے اس دن کو ’نوروز‘ نہیں تو اور کیا کہیں گے۔ اس دن اللہ رب العزت کا شکر نہ کریں تو اور کیا کریں۔ کیونکہ وہی تو ہے جو مردوں کو زندہ کرتا ہے، مرجھائے ہووں کو تروتازہ کرتا ہے۔ ویسے تو ہرلمحے ہم اللہ کا شکر بجالاتے ہیں مگر نوروز کو ہم خاص طور پر کیوں مناتے ہیں ہم اس دن اللہ رب العزت کا لاکھوں بار شکر کیوں کرتے ہیں اس بات کو سمجھنے کے لئے قرآن شریف کے سورہ الروم کی آیات نمبر 17 سے 20 تک کو پڑھیں اور سمجھ نہ آئے تو بار بار پڑھیں تاکہ نوروز کے منانے کا مقصد سمجھ میں آجائے۔ 

سُوۡرَةُ الرُّوم کی آیات نمبر 17 سے 20 میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہے۔ 

سوتم الله کی تسبیح کیا کرو شام کے وقت اور صبح کے وقت۔ (17) اور تمام آسمان اور زمین میں اسی کی حمد ہوتی ہے اور بعد زوال اور ظہر کے وقت۔ (18) وہ جاندار کو بے جان سے باہر لاتاہے اور بے جان کو جاندار سے باہر لاتا ہے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم لوگ نکالے جاؤ گے۔ (19) اور اسی کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تھوڑے ہی روزوں بعد تم آدمی بن کر پھیلے ہوئے پھرتے ہو۔ (20)

وہ اللہ ہی تو ہے جو زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ہم اس دن کو یوم تشکر کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔


اس دن کا ایک اورمذہبی پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ پہلی بار دنیا میں سورج اسی دن دنیا پر طلوع ہوا تھا اور اسی دن درختوں پر ہریالی آئی تھی۔ طوفان نوح علیہ السلام بھی اسی روز ختم ہوا اور ںوح ؑ کی کشتی بھی اسی روز کوہ جودی پر اتری۔ عرض بہت سے مذہبی واقعات اس دن سے منسوب ہیں۔ 

کئی مسلکوں میں اس دن کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس روز خصوصی عبادات کا اہتمام ہوتا ہے جن میں آنے والے سال کے لئے خوشحالی، امن و سلامتی، ترقی اور ملک و قوم کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔


جمعہ، 26 فروری، 2016

پہلے بیماریاں تھیں، اب سیلفی یا سیلف کیلنگ، ’’ سیلفی سے ہلاکتیں‘‘


بلاگر نجمہ بی بی (چترال)
دیکھا جائے تو ٹیکنالوجی کے آنے سے لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاپ بپا ہوگیا ہے مگر کہیں مشکلات میں گھریں ہیں۔۔۔۔ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بچوں پر بری طرح اثر انداز ہورہا ہے۔ گیمز کے زیادہ اسعمال سے وقت کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے یہاں ہم آپ کو سیلفی کے جنون اور اس جنونیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگا ہ کر رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو بہت ہی تشویشناک ہیں۔ 

بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے علاقے ناشک میں حالیہ دنوں پیکنک میں گئے دوست تالاب میں گر کر ہلاک ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق ناشک میں واقع دالدیو ڈیم میں سیلیفی لیتے ہوئے ایک دوست ڈوب گیا تو اس کو بچانے کے لئے اس کا دوست پانی میں چھلانگ لگا دیا۔ کالج کے 10 لڑکے پیکنک منانے کے لئے ڈیم پر گئے تھے۔ دوران پیکنک سورابھ جگناتھ جس کی عمر 18 سال ہے ڈیم کے بانڈری وال پر سیلفی لیتے ہوئے توازن کھودیا اور ڈیم کے گہرے پانی میں جاگرا اس کا ہم عمر دوست اجنکیا بہاصاحب گیکر دوست کو بچانے پانی میں چھلانک لگادی دونوں لڑکے پانی کی گہرائی میں چلے گئے۔ بعد ازاں مقامی لوگ جمع ہوگئے اور مچھیروں کی مدد سے دونوں کی لاشیں نکالی۔

رواں سال بھارت میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ 9 جنوری کو ایک 18 سالہ لڑکی سیلفی لیتے ہوئے ممبئی کے بندرا بندسٹینڈ میں ڈوب گئی۔ 20 جنوری کو چھٹیاں منانے والا ایک نواجون سلیفی لیتے ہوئے جودھ پور مہران گڑھ فورٹ کی دیوار سے گرکر فوت ہوگیا تھا۔ 20 جنوری ہی کو ایک اور سیلفی کا دیوانہ دیہرا دن میں پھسل کرجھیل میں گرکر فوت ہوگیا۔ فروری1 اور 5 کو ایک 17 سالہ لڑکا چنائی میں سیلفی لیتے ہوئے ٹرین کی زد میں آکرجان دے دی، ایک 14 سالہ لڑکا مدھیا پردیش میں سلیفی لیتے ہوئے کول مائن میں گرکر فوت ہوگیا۔

خدا را سیلفی لیں مگر اپنے آس پاس موجود خطرات پر بھی نظر رکھیں۔

جمعرات، 21 مئی، 2015

رویوں کی تبدیلی چاہیے، ناموں کی نہیں: علی زیدی

(ایڈمن نوٹ: یہ بلاگ بشکریہ ڈان نیوز شائع کیا جارہا ہے)


خالہ نسرین اور ماما قیوم برسوں سے ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ خالہ نسرین ہر شبِ جمعہ نیاز کیا کرتیں، جبکہ ماما قیوم ہر دو دن بعد انہیں معائنے کے لیے کسی نہ کسی ڈاکٹر کے پاس لے جایا کرتے تھے تا کہ کوئی حل نکل آئے۔

انہوں نے سارے ٹوٹکے، دعائیں، اور تعویذ گنڈے آزما کر دیکھ لیے تھے۔ یہاں تک کہ کوئٹہ کا کوئی بھی ایسا پیر و مرشد یا آستانہ باقی نہیں بچا تھا جہاں ماما قیوم اور خالہ نسرین نے حاضری نہ دی ہو۔

بالآخر ایک پیر کے پاس جانے کے بعد قدرت ان پر مہربان ہوئی اور امید کی کرن نظر آنے لگی۔ تیرہ برس بعد خالہ نسرین اور ماما قیوم کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو ان کے ساتھ ساتھ پورے محلے میں عجیب خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ مٹھائی تقسیم کرتے، خدا کا شکر ادا کرتے، اور پیر صاحب کو دعائیں دیتے۔

بزرگوں سے صلاح مشورے کے بعد بچے کا نام حشمت اللہ رکھا گیا۔ حشمت اللہ بڑا ہو کر اسکول جانے لگا تو روز اس کی شکایتیں بھی آنے لگیں۔ وہ بلا وجہ ہر ایک سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا، اور ہر دن کسی نہ کسی بچے سے ضرور اس کی لڑائی ہوتی تھی۔ اس طرح وہ سارے محلے میں لڑاکو کے نام سے پہچانا جانے لگا، اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اب وہ بات بات پر لوگوں کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا۔

خالہ نسرین حشمت اللہ کو سمجھا بجھا کر تھک گئیں، جبکہ ماما قیوم اسکول جا جا کر بیزار سے ہوگئے۔ بالآخر کافی سوچ و بچار کے بعد دونوں ایک بار پھر پیر صاحب کے ہاں مدد مانگنے پہنچ گئے۔ پیر صاحب نے ساری روداد سن کر کہا کہ نام بدل دو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ چنانچہ حشمت اللہ کا نام بدل کر دانیال رکھ دیا گیا۔ نام کی تبدیلی سے حشمت اللہ، جو اب دانیال بن چکا تھا، کے رویے میں ایک ٹھراؤ سا آگیا۔ 

میں جب بھی حشمت اللہ کے بارے میں سوچتا ہوں تو وطن عزیز پاکستان کی یاد آتی ہے۔ وجہ بعد میں بتاتا ہوں۔

پچھلی صدی کی شروعات سے ہی کبھی مذہب کے نام پر، تو کبھی قومیت کے نام پر کئی جنگیں لڑیں گئیں۔ ان جنگوں میں جس طرح انسانیت کی عظمت کو پامال کیا گیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی دوران کچھ نئے جغرافیے قائم ہوئے۔ کچھ آزاد ہو گئے تو کچھ غلام۔ کچھ لوگوں کو ان کی آبائی جگہوں سے بے دخل کردیا گیا، تو کچھ لوگوں کو ان کا کھویا ہوا رقبہ واپس مل گیا۔

روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور بہت ساری نئی ریاستیں قائم ہوئیں۔ ایران نے امریکہ کے چنگل سے اپنی کھوئی ہوئی آزادی چھین لی۔ یہاں بر صغیر میں اول تو ہندوستان کے باشندوں نے برطانیہ سے آزادی کا مطالبہ کیا، اور پھر فوراً ہی ہندوستان کے مسلمان اپنے حقوق کے لیے ایک آزاد ریاست کے بارے میں سوچنے لگے، جہاں انہیں ان کے حقوق میسر آسکیں، جہاں وہ بلا خوف عبادت کر سکیں، جہاں ان کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو۔

بہت سی جانوں کا نذرانہ دینے اور طویل خونریزی کے بعد بالآخر مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک الگ ملک نصیب ہوا۔ ہندوستان سے جو مسلمان بڑی جدوجہد کے بعد پاکستان پہنچے، انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ پاکستان سے بھی بہت سارے ہندو ہندوستان ہجرت کر گئے جہاں پہنچ کر انہوں نے وہاں کی خاک کو چومنا شروع کر دیا۔

مگر صد افسوس کہ دونوں ملکوں کے باشندوں کو کچھ ہی عرصے میں بڑی مایوسی ہوئی، اور انہوں نے اپنے 'نئے' ہم وطنوں سے سوال کرنا شروع کیا کہ کیا یہی وہ ملک ہے جس کے لیے ہم اپنی زندگی داؤ پر لگا کر یہاں پہنچے؟ یہاں بھی تووہی حال ہے: وہی بھوک، وہی گندگی، وہی طبقاتی نظام، وہی چوری چکاری، وہی دروغ گوئی، وہی فتوے اور وہی قتل و غارت۔

جواب میں دونوں ملکوں کے بزرگوں نے کہا کہ یہ تو بس شروعات ہے۔ وقت لگے گا لیکن آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس آہستہ آہستہ کے انتظار میں 68 سال گزر گئے، مگر کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی پاکستان کے ہر باشندے کا یہی سوال ہے۔ کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کے لیے ہم نے اتنی قربانیاں دیں؟

اور یہیں سے شروع ہوتی ہے اصل بات۔ کیا غلطی ہوئی ہم سے؟ کیا قائد اعظم نے اپنا فرض پوری طرح نہیں نبھایا یا ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی؟ کیا ہمیں کسی کی نظر لگ گئی ہے، یا دشمن نے ہم پر جادو ٹونا کر دیا ہے؟ کیا ہم اپنے اعمال کی سزا پا رہے ہیں یا کیا ہم اس وطن عزیز کے صحیح حقدار نہیں؟ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ ہم نے تو بڑی جدوجہد کے بعد یہ ملک حاصل کیا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سب کے ذہنوں سے بری طرح چپک کر رہ گئے ہیں۔ اور پھر مختلف عالم فاضل لوگ جو ملک کے الگ الگ حصوں میں مقیم تھے، انہوں نے جوابات دینے شروع کر دیے۔

کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی اس ملک کے حق میں نہیں تھے، اس لیے ہمیں آزاد کیا جائے۔ دوسری طرف سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، ہمیں آزادی چاہیے۔ کچھ نے کہا کہ بھائی یہ ملک بنایا ہی ہم لوگوں نے تھا، اس پر صرف ہمارا ہی حق ہے۔ اور اس طرح کچھ لوگوں نے جگر کی طرح اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو سارے مسائل کا حل قرار دے دیا۔

مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اسی فلسفے کے تحت ہم نے پہلے برطانیہ پھر ہندوستان سے آزادی حاصل کی۔ کیا ہمارے مسائل آزادی حاصل کرنے سے حل ہوگئے؟ کیا آزادی کے بعد ساری سڑکیں پکی ہوجائیں گی، سارے بند اسکول کھل جائیں گے، سارے ہسپتالوں میں مفت علاج ملنا شروع ہوجائے گا؟

مثال کے طور پر ہم کچھ دیر کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ اگر بلوچستان آزاد ہو بھی جاتا ہے، تو کیا پھر 'آزاد بلوچستان' میں ذکری برادری کو ان کے عقائد کے مطابق عبادت کی اجازت ہوگی؟ کیا ہزارہ برادری کی نسل کشی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ کیا پشتون بھائیوں کے کاروباری مراکز کو تحفظ ملے گا؟

کیا بلوچ اور براہوی ایک دوسرے سے لڑنا بند کر دیں گے؟ کیا سرداری نظام کے ظلم کو روکا جائے گا؟ کیا بلوچوں کے مختلف قبیلے ایک دوسرے کے ساتھ برسوں کی دشمنی ختم کر دیں گے؟ کیا غریب عوام کو صاف پانی، کھانا، پوشاک اور دیگر حقوق مہیا ہوں گے؟ کیا سرداری نظام تلے جو ظلم ہو رہا ہے وہ نظام ختم کر دیا جائے گا؟ کیا ہر فرد کو پولیو سے محفوظ رکھا جاسکے گا؟

کیا مذہبی جنونیت پر قابو پا لیا جائے گا؟ کیا قوم پرستی کی وجہ سے جو نفرتیں جنم لے چکی ہیں، وہ ختم ہوں گی؟ کیا عورت کو انسان سمجھا جائے گا؟ کیا ہر بچّے کو تعلیم فراہم کی جائے گی؟ کیا کم عمر لڑکیوں کی شادی پر پابندی لگا دی جائے گی؟ کیا زبان کی بالا دستی پر بے جا بحث اور لڑائی جھگڑا ختم ہوگا؟

کیا کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں بسنے والے لوگوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے؟ کیا مزدور کو سرمایہ داروں سے چھٹکارہ مل سکے گا؟ کیا منشیات کی غیر قانونی خرید و فروخت پر قابو پا لیا جائے گا؟ کیا لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار محبت اور برداشت کا جذبہ وجود میں آئے گا؟ کیا ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؟

جب میں اس سوال کا جواب دینے لگتا ہوں، تو میرا دل درد سے پھٹا جاتا ہے کیونکہ جواب ہے "نہیں، نہیں، نہیں"۔ بلوچستان کے نام کو بدلنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ آزادی ملنے سے کچھ نہیں بدلنے والا۔ کیوں؟ کیونکہ بدلاؤ نام کے بدلنے کا نام نہیں، بلکہ انسان کی سوچ اور رویوں کے بدلنے کا نام ہے۔

ہم ہندوستان میں بھی اسی طرح تھے، اور پاکستان میں بھی ویسے ہی ہیں۔ وہی دروغ گوئی، وہی آرام پسندی، وہی جگاڑو طبیعت، وہی تنفر، وہی جذباتیت، وہی خود نمائی، وہی مردہ پرستی، وہی اذیت آزاری، اور وہی فتوے اور قتل و غارت گری۔ کچھ نہیں بدلا۔ بس نام بدل گیا۔

مجھے اب بھی یاد ہے جب ایک عزیز خاتون، جو ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہیں، نے ایک دن مجھ سے کہا، "ہم کچھ رشتہ داروں سے ملنے ہندوستان گئے۔ وہاں ایک دکاندار سے ملاقات ہوئی اور جب ان کو پتہ چلا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو انہوں نے کہا "آپ ہندوستان کیوں نہیں آتے؟ پاکستان میں ہندوؤں کے ساتھ بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ آپ ہندو ہیں اور ہندوستان آپ کے لیے اچھا اور محفوظ ملک ہے۔" ساتھ ہی دکاندار یہ بھی کہتا رہا کہ "مسلمان کبھی نہیں سدھریں گے، ان کے لیے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں۔ پھر سامنے والے مرغ فروش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "وہ دیکھو وہ مسلمان ہے، میں روز اسے کہتا ہوں یہ تمہارا ملک نہیں، نکل جاؤ اور ہمیں چین سے جینے دو۔"

انہوں نے اس دکاندار سے کہا کہ "پھر کیا فرق ہوا آپ میں اور ان پاکستانیوں میں جن کا آپ اتنا شکوہ کر رہے ہیں؟ پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے اور ہندوستان میں بھی یہی ہو رہا ہے، یہی مردم بے زاری، یہی طعنہ زنی، یہی نفرت، یہی ذہنیت۔"

جو لوگ پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، میرا ماننا ہے کہ انہیں اصل مسائل پر غور کرنا چاہیے۔ آزاد بلوچستان سے کچھ نہیں ہونے والا۔ بھلے بلوچستان کا نام بدل کر "محبتستان، عشقستان، امنستان" رکھ لیں۔ کچھ نہیں بدلنے والا۔ کیونکہ یہی لوگ ہیں۔ یہی بیماریاں، یہی فطرتیں، یہی عادات، یہی ذہنیت اور انہی رویوں میں ڈوبے لوگ۔

جب تک ہم اپنی سوچ اور رویوں پر کام نہیں کریں گے، کچھ نہیں بدلنے والا۔ ہمیں اصل آزادی اپنے ذہن کی غلامی سے حاصل کرنی چاہیے۔ ہمیں اصل آزادی اپنے نفس کی غلامی سے حاصل کرنی چاہیے۔ ہمیں اصل آزادی اپنی خود پسندی سے حاصل کرنی چاہیے۔ ورنہ فارسی میں محاورہ ہے "وہی آش وہی کاسہ۔"

تو ہوا یوں کہ جب حشمت اللہ کا نام تبدیل کر کے دانیال رکھ دیا گیا تو وہ بہت امن پسند ہو گیا اور اس نے لڑائی جھگڑا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ جوان ہو گیا اور اس کی شادی محلے کی خوب صورت اور خوب سیرت لڑکی سے طے پا گئی۔ حشمت الله کی شادی کے دن سب لوگ خوشی منا رہے تھے اور خالہ نسرین اور ماما قیوم کی خوشی تو دیکھنے کے قابل تھی۔ مگر پھر اچانک خبر آئی کہ دانیال یعنی حشمت الله نے خودکشی کر لی ہے۔

مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں