عامر لیاقت حسین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عامر لیاقت حسین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 8 دسمبر، 2015

تبدیلی آگئی ہے۔۔۔ لائوڈ اسپیکر ۔۔۔عامرلیاقت حسین کا کالم

تبدیلی آگئی ہے۔۔۔ عامرلیاقت حسین کا کالم



ڈیلی جنگ دسمبر4، 2015

منگل، 19 مئی، 2015

لہورستا کراچی، مصروف سیاستدان ۔۔ شیر دل جنرل۔۔۔ عامر لیاقت کا مکمل کالم پڑھیں

خوف اور دہشت گردی کے سائے اتینے گہرے ہیں کہ مرنے والا 1 ہو یا 45۔۔۔ لیکن انہیں مارنے کی ذمہ داری لینے والے بہترے نظر آئیں گے کبھی طالبان تو کبھی جنداللہ  اور کبھی احرار کبھی داعش۔۔۔ لیکن ذمہ داری قبول کرنے والے  ان کی ماں کو کیسے بھول جاتے ہیں جن کی کوکھ سے ان نا سوروں نے جنم لیا ہے۔۔۔ عامر لیاقت کا مکمل کالم پڑھیں



جمعرات، 14 مئی، 2015

خوش شکل معروف اداکارہ لنڈسے لوہان نے اسلام قبول کیا

نیویارک (نیوز ڈیسک ) معروف خوش شکل امریکی اداکارہ لنڈسے لوہان نے اسلام قبول کیا ہے۔  لنڈسے ایک کتھولک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔ بعد میں دیگر عقائد کا مطالعہ شروع کیا  اور مختلف روحانی عقائد کے بارے میں بات کرتی رہے۔ بدھ کے روز لوہان کی قرآن شریف تھامے  ہوئے فوٹوگراف میڈیا پر آئیں۔ آئرش اور اطالوی ثقافت سے تعلق رکھنے والی کیتھولک عیسائی  ہاتھ میں قرآن شریف تھامے میں بچوں کے مرکز آئی۔ لنڈسے روٹین کی ٹائمنگ سے 2 گھٹنے تاخیر سے آئی تھی اور ہاتھ میں قرآن شریف تھا۔ 

28 سالہ لنڈسے نے شراب نوشی اور ڈیٹنگ بھی ترک کردی ہے۔ قرآن شریف مسلمانوں کو شراب نوشی اور نشہ آور اشیاء سے اجتناب کا سبق دیتا ہے۔  تاہم نوجوان اسٹار اپنے عروج کے زمانے میں اسرائیلیات  کا مطالعہ کیا ہے اور اسرائیلیات کی کلاسز میں بھی شرکت کرتی رہی ہے۔  2012 میں وہ بدھ مت کے  گروہ میں شامل ہونے کی خبریں بھی آئی تھیں۔  اور اب میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ لنڈے لوہان نے اسلام کی جانب رعب ہوئی ہے۔



منگل، 5 مئی، 2015

حرام ایجنسی ’’را‘‘

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین

موسم ہر طرح سے گرم ہے …چاہے سیاسی ہو یا قانونی…آئینی ہو یاجمہوری، گرمی شدت کو پہنچ چکی ہے بلکہ کراچی میں تو کچھ زیادہ ہی شعلہ آلودہے …یہاں تک کہ لُو سے زیادہ گرم اور سورج کی تمازت سے پَرے ’’تپش گر‘‘بیانات اور ’’خطابات‘‘ کے آگ برساتے تھپیڑے مزاج پوچھنے میں ذرا بھی کوتاہی کا مظاہر ہ نہیں کررہے، کچھ حیران ہیں کہ کیا کہیں؟کچھ پریشان ہیں کہ کیسے کہیں؟کسی کو فکر ہے کہ ’’ردعمل‘‘شدید نہ ہو اور کوئی اِسی احتیاط میں خاموش ہے کہ کہیں احتیاط کا دامن ہی ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے… اکثر چاہتے ہیں کہ معاملہ ’’رفع دفع‘‘ ہو اور بیشتر چاہتے ہیں کہ اِس پر بھی کوئی ’’دفعہ‘‘ ہو…ویسے’’ قدم بڑھاؤ صاحب ‘‘نے تو احتیاط میں بھی اِس قدر احتیاط کردی کہ انتہائی احتیاط سے سوچ بچار کے بعد یہ ردعمل دیا کہ ’’حساس معامالات میں سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے‘‘… اور ردعمل بھی چونکہ ایک ’’حساس معاملہ‘‘تھا اِسی لئے وہ بھی بہت سوچ سمجھ کر بڑی دیر بعد بولے مگر اللہ کا شکر کہ بولے…

بہرحال میں اِسی اُدھیڑ بُن میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا لکھوں؟ ویسے بھی ’’صبح پاکستان‘‘ اور ’’انعام گھر پَلس‘‘ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوچکے ہیں اور میں رجب المرجب، شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کی تیاریوں میں کچھ یوں مگن ہونے کو تیار ہوں کہ کسی کو خبر ہی نہ ہو کہ میں کہاں ہوں؟ لیکن ’’خبریں‘‘ ہی ایسی ہیں جو پولیس کی طرح ہم کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا تعاقب کر رہی ہیں… اِدھر چُھپنے کی کوشش کی اور اُدھر ’’پولیس مقابلے‘‘ میں جان گئی… ہر خبر ’’راؤ انوار‘‘ ہے اور ہر کالم نگار ،صحافی یا تجزیہ کار ’’مبینہ دہشت گرد‘‘…حالانکہ ہم سب پہلے ہی سے ’’گرفتار ‘‘ ہیں ، ہاں اِس کا پتا نہیں کہ بکتر بند میں لے جاکر کسے کہاں’’پھڑکایا‘‘ جائے گا اور کون پھڑکائے گا؟ ’’کون‘‘ سے میرا مطلب ہے کہ ’’خبریں دینے والوں‘‘کا وار کارگر ہوگایا ’’خبریں بنانے والے‘‘ کامیاب رہیں گے؟…البتہ دونوں ہی صورتوں میں سوسائٹی،میوہ شاہ ،پاپوش، گذری، ڈیفنس، ملیر، ناظم آباد یا ملک پلانٹ کے قبرستانوں میں گورکنوں کی چاندی یقینا ہو جائے گی…

گو کہ’’را‘‘ کی حیثیت ہمارے ملک میں ایسی ہی ہے اور بلاشبہ ایسی ہونی بھی چاہئے جو اسلام کی نگاہ میں ’’خنزیر‘ کی ہے …مگر ’’خنزیر‘‘کو ایک ’’امتیازی وصف‘‘ یہ بھی حاصل ہے کہ اضطراری کیفیت میں کہ جب ’’حالتِ احتضار‘‘ ہو اور کھانے کو ایک دانہ بھی میسر نہ ہو توجان بچانے کے لئے اُس کا ایک لقمہ تناوُل کیا جاسکتا ہے ،یہ اور بات ہے کہ متقیوں کے نزدیک جان ہاردینازیادہ بہتر ہے بجائے اِس کے اُس لقمے کی جانب ہاتھ بڑھایا جائے جسے اللہ نے حرام قراردیا ہے…تقوے اور فتوے میں بس یہی ایک فرق ہے اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ دینی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے ہیں، عزیمت والے تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور رخصت والے فتوے سے استفادہ کرتے ہیں…لیکن ’’را‘‘ اِس معاملے میں انتہائی ’’بدقسمت‘‘ ہے …اِسے تو ’’اضطراری حالت‘‘ میں بھی پُکارا نہیں جاسکتا، یہ ایک ایسی ’’حرام‘‘ ایجنسی ہے کہ جس کی ’’جنس ‘‘ کا بھی ابھی تلک کوئی تعین نہیں ہوسکا ہے …

خود اِس کا تخلیق کار بھارت اِسی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ اِسے ’’ہوتی‘‘ کہیں یا ’’ہوتا‘‘…اُن کے نزدیک کبھی را ’’کرتی‘‘ ہے اور کبھی یہ ’’کرتا‘‘ ہے …ویسے تو یہ RAW ہے یعنی معنوں کے اعتبارسے خام، نامکمل،کچا، ناپختہ، بودا ،کمزور ،ٹیڈی ،ناتجربہ کار، اناڑی، فضول، بے ہودہ اور اُس وقت تک بے کار کہ جب تک اِسے قابلِ قدر شکل نہ دے دی جائے …یہ اور بات ہے کہ اِسے جب بھی ’’مورتی بنانے والوں‘‘ نے کوئی شکل دینے کی کوشش کی اِس کا تھوبڑا مزید بگڑ کر ہی رہ گیا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ٹہری کہ اِسے یہاں ، وہاں گُھسنے کی بڑی عادت ہے… اپنے ہاں تمیز سے بیٹھنے کے بجائے ’’پڑوس‘‘ میں گھس کرتا کا جھانکی، چوری چکاری، لگائی بجھائی اور مفسدانہ عادتوں نے اِس کا حلیہ برباد کرکے رکھ دیا ہے،صورت چڑیلوں کی اور دماغ پریوں جیسا کے مصداق بدصورتی پر حسن کا ایسا اندھا گمان ہے کہ لوگ اگر نفرت سے منہ پر تھوکیں تو اِسے بھی بدبخت پذیرائی کی پھوار سمجھتی ہے …

مجال ہے جو اپنے گھر میں اطمینان سے رہے، اِسے تو دوسروں کے گھر پر نظر رکھنے میں مزا آتا ہے ،ہمسایوں کا چین اُجاڑ کر اِسے نہ جانے کون سا سکون ملتا ہے اور اِسی بدخصلتی کی نحوست اِس کے چہرے سے بھی عیاں ہے…پھٹکار اور دھتکار کے زہریلے پھوڑوں کی چیچک کیساتھ اِس کی شکل اتنی بھیانک و خوفناک ہے کہ دیکھنے سے کراہیت آئے اور یہی وہ سبب ہے کہ ہمارے ملک میں اِس کا نام لینا کسی ’’غلیظ شے ‘‘ کوعزت دینے کے مترادف ہے کیونکہ اِس کے مقابلے میں ہر پاکستانی ایک باعزت ،وفادار اور محب وطن ہے اور کسی باعزت اور ہر دل عزیز کے منہ سے اِس رُسوا کا نام چاہے نفرت میں ہو یا محبت میں،عمداً ہو یا طنزاً…بس دلوں کو مایوس،پژمُردہ اور غم زدہ کردیتا ہے…دل گویا ٹوٹ جاتے ہیں، چہروں پر تاسف ڈیرے ڈال لیتا ہے اور گردنیں بھاری ہوکر جھک جاتی ہیں… اُمید ہے کہ آئندہ خیال رکھا جائے گا اور ’’را‘‘ جیسے دھوبی کے کتے کو کہ جو گھر کا ہے نا گھاٹ کا، بے وجہ اہمیت دینے سے گریز کیا جائے گا…

میں تو کہتا ہوں کہ جس سے لوگ محبت کرتے ہوں اُسے اپنے چاہنے والوں کی حمایت کافی ہے، اُس بدشکل بھارتی سانپ کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہی کیاجو موقع ملتے ہی آپ کو بھی ڈَس لے گا…!!

مجھے یقین ہے کہ یہ بحث جلد اختتام پذیر ہوگی،معافی کے بعد معاف کردینا ہی اللہ کو محبوب ہے اور پھر یہ تو اور بھی اچھی بات ہے کہ کسی کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ بلاتاخیر اِس پر اپنی وضاحت اور معذرت کا مرہم لگا کر زخم کو مندمل کرنے کی کوشش کرے …افراتفری سے یوں بھی کچھ حاصل تو ہونا نہیں ہے، حالات مزید ہی بگڑیں گے جو کسی طور بھی ملک کی موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں مناسب نہیں…سب نے اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا،قراردادیں بھی پیش ہوگئیں اور غصہ بھی نمایاں ہے، کہنے والے کو بھی (اچھے گمان کے مطابق) اندازہ ہو چلا ہے کہ جذبات کے دریا میں اِتنی دور تک نہیں تیرنا چاہئے کہ ساحِل ہی نظروں سے اوجھل ہوجائے لہٰذا اب کچھ اور باتیں ہوجائیں، پکڑے جانیوالوں سے مزید تفتیش کی جائے،قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور آپریشن کو اُسکے منطقی انجام تک اِس طرح پہنچایا جائے کہ اِسکی ’’شفافیت‘‘ پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے … بدنام اور بُری شہرت کے حامل افسران سے پریس کانفرنسیں کرانے اور میڈیا پر اُن کی رونمائی کے بجائے حکومت مجرموں کو عدالتوں میں پیش کرے اور اُنہیں سزا دلوانے میں اُتنی ہی جَلدی کرے جس طرح میت کو دفنانے میں جلدی کی جاتی ہے…

ویسے تو ہمارے ملک میں کچھ ایسے خود ساختہ لبرلز،کینڈل بردار چُھٹیرے اور طے شدہ ریٹ کے مطابق ’’ماڈریٹس‘‘ بھی ہیں جو ٹوئٹر اور فیس بُک کے ذریعے ’’را ‘‘کے سابقہ اور موجودہ سربراہان سے ’’رابطے‘‘ میں رہتے ہیں اور اُن کی لَلّو چَپّو میں اِس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنی ’’شناخت‘‘ پر شرمندگی کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اپنے گریبانوں کی دماغ پھاڑ دینے والی بدبو سے اِن کی طبیعت مالش نہیں کرتی مگر اپنی فوج اور آئی ایس آئی کی خوشبو سے اِن کا وجود اُسی طرح بلبلاتاہے جس طرح گندگی کا کیڑا چمن کی مہک سے اُلجھتا ہے اور واپس گندگی کی طرف رینگتاہے تاکہ مرنے سے بچ جائے…میں ایسے ہی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہولڈرز سے (اِسکے سوا اِن میں کوئی پاکستانیت نہیں) یہی کہنا چاہوں گا کہ بھارت سے دوستی کی بات اور ہے اور ’’را‘‘ سے ڈوریں ملانے کی بات اور … براہِ کرام فرق رکھا کیجئے ، قوم پر احسان ہوگا…!!


اشاعت بشکریہ روزنامہ "جنگ"

مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں