چترال (ویب ڈیسک) چترال کے دور دراز علاقے لاسپور کے ہرچین سے تعلق رکھنے والی طاہرہ دختر شبیر احمد نے دنیا کو بتا دیا کہ اس دنیا میں رہناہے تو عزت سے رہنا ہے ورنہ موت بہتر ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ بچی کو گورنمنٹ ہائی سکول کے ایک کلاس فور اسٹاف نے جنسی حبس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جس پر طالبہ طاہرہ نے مذکورہ درندے کے خلاف پولیس میں زیر دفعہ 506، 354 کے تحت پرچہ کٹوایا تھا اور مقدمہ مقامی عدالت میں چل رہا تھا۔ جیسا کہ روایت ہے کہ ہماری عدالتیں کس انداز میں فیصلے کرتی ہیں، عدالت نے مذکورہ طالبہ کو گواہ پیش کرنے کا کہا ۔۔۔۔
(ان عدالتوں کو کوئی یہ تو سمجھائے کہ کوئی شخص کسی بچی کو جنسی حبس کا نشانہ بناتا ہے تو وہ کسی کو گواہ بناکر یہ کام کرے گا، یا کیا وہ کسی کے سامنے یہ کام کرے گا۔۔ جب ایک بچی اپنی پوری زندگی اور عزت دائو پر لگاکر کسی کے خلاف مقدمہ کرتی ہے تو اس میں سچائی ضرور ہوتی ہے۔۔۔۔ )
ہمارے ذرائع کے مطابق سکول کا پرنسپل اور استاذ بدنامی کے خوف سے بچی کے کیس کو کمزور کیا اور کلاس فور ملازم کی طرفداری کی جس کی وجہ سے بچی کیس ہار گئی تھی۔ بچی کو جب عدالت نے گواہ پیش کرنے کا کہا، تو بے چاری گواہ کہاں سے لاکر پیش کرتی، عدالتی رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انصاف نہ ملنے پر اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرکے دنیا سے چلی جانے کو ترجیح دی، کیونکہ ایک لڑکی کے لئے یا تو ایسے معاملات پر مٹی ڈال دینا پڑتا ہے یا اگر معاملہ لوگوں کے سامنے آئے اور انصاف بھی نہ ملے تو کوئی بھی عزت دار لڑکی دنیا میں رہنا نہیں چاہے گی۔
لڑکی کی خود کشی کے بعد پولیس پہنچی، لاش کو بونی کے ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردیا۔
اصل اشاعت ٹائمز آف چترال
کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے