کراچی: پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینیئر وائس چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ برآمدات مسلسل گر رہی ہیں۔ گزشتہ چار سال میں برآمدات میں 3.3 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ 2011 میں برآمدات 25.3 ارب ڈالر تھیں جو اب 22ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔
برآمدات جی ڈی پی کے 14 فیصد سے گر کر 11 فیصد رہ گئی ہیں اور ان میں مزید کمی آ رہی ہے جو تشویشناک ہے۔ میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ 2008 میں قرضوں کی ادائیگی پر جی ڈی پی کا 11.3 فیصد خرچ ہوتا تھا مگر اب ریکارڈ قرضوں کی وجہ سے جی ڈی پی کا 19.1 فیصد خرچ ہو رہا ہے جو ملکی وسائل پر بڑا بوجھ ہے۔ برآمدات گرنے کی وجوہات میں ادارے کی نا اہلی سر فہرست ہے اسکے ساتھ ساتھ توانائی بحران،پیداواری لاگت میںمسلسل اضافہ، سیاسی عدم استحکام، ویلیو ایڈیشن کو نظر انداز کرنا، خام مال کی برآمد پر زیادہ توجہ اور جی ایس پی پلس کی سہولت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ناکامی ہے۔
آزادانہ تجارت کے معاہدوں سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے، سرمایہ کارمینوفیکچرنگ کے بجائے ٹریڈنگ کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ میاں زاہد حسین
انھوں نے کہا کہ بہت سے فری ٹریڈمعاہدوں سے ملک کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچا ہے مگر اس سلسلے میں نہ کبھی ذمہ داروں کا تعین کیا گیا نہ کوئی خاص کاروائی کی گئی۔ان معاہدوں کے جو نکات ملکی مفاد کے خلاف ہیں ان پر فوری نظر الثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی برآمدات گرنے کا ایک سبب اسٹرکچرل خامیا ں ہیںجبکہ برآمدی شعبے کو غیر مسابقانہ پالیسی، نامناسب انفرا اسٹرکچر اور ہائی ٹرانزیکشن کاسٹ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسکے علاوہ برآمدی صنعت کو بچانے کی پالیسی واضح نہیں اور کئی شعبے بین الاقوامی مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ایک دہائی سے جاری توانائی بحران کی وجہ سے بھی معیشت پر بہت منفی اثر پڑا ہے جبکہ ریفنڈز کی عدم ادائیگی نے برآمدی سیکٹر کو کاری ضرب لگائی ہے۔
بنگلہ دیش، بھارت اور ویت نام میں بجلی اور گیس سستی ہیں جبکہ ہمارے یہاں ان کی قیمت زیادہ ہے۔انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کے قوانین لبرل ہیں مگر ان سے فائدہ نہیں ہو رہا کیونکہ لوگوں کا رجحان ٹریڈنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ کافی عرصے سے زوال پذیر ہے کیوں کہ کچھ بنانے کے لیے بہت سی چیزوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے جب کہ ٹریڈنگ ایک کمرے سے بھی ہو جاتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ، کموڈٹی مارکیٹ اور لینڈ مارکیٹ کے ابھار نے بھی مینوفیکچرنگ کو متاثر کیا ہے۔ ملک میںایسا کوئی بینک نہیں جو صنعتی شعبے کی مدد کرے جبکہ کمرشل بینک اب طویل المدتی قرضے نہیں دے رہے کیونکہ انھیں حکومت کو قرضے دینے میں زیادہ فائدہ نظر آتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
Write تبصرے