وسعت اللہ خان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
وسعت اللہ خان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 4 اپریل، 2016


کون سا بھٹو، کس کا بھٹو؟  وسعت اللہ خان

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے 38 برس کے دوران جنم لینے والی تیسری نسل کے لیے بھٹو پاکستانی تاریخ کے ایک ذیلی حاشیے، بےنظیر کے والد اور بلاول کے نانا سے زیادہ کچھ نہیں۔

اگر بھٹو ازم تھا بھی تو اب وہ کسی مقدس صندوقچی میں بند ہے جس کا دیدارِ عام پیشہ ور مرثیہ خوان سال میں بس دو دن (پانچ جنوری اور چار اپریل) کرواتا ہے ۔

(جیسے جناح صاحب کی اہمیت اتنی رہ گئی ہے کہ 25 دسمبر کو چھٹی ہوتی ہے اور اقبال کی تو اتنی بھی نہیں رہی)۔

جو سیانے سمجھتے ہیں کہ تاریخی عمل کی گاڑی میں ریورس گئیر نہیں ہوتا، انھیں اپنے مفروضے کی اوقات دیکھنی ہو تو پاکستان سے بہتر مثال کہاں۔

پاکستان کا مولوی بھٹو کی معزولی کے 40 برس بعد بھی 77 جیسی تحریک چلانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اسے بھٹو کی پھانسی کے 38 اور پھانسی دینے والے ضیا الحق کی موت کے 28 برس بعد بھی سیکولر لبرل ڈراؤنے خواب آ رہے ہیں۔ اور اسی بھٹو کے آئین کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے چوبارے سے 38 برس بعد بھی ’جاگدے رہنا ، ساڈہے تے نہ رہنا‘ کے انتباہات بھی تسلسل سے جاری ہو رہے ہیں۔

عام آدمی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اصلی باتصویر مسائل کی جانب دھیان نہیں بھٹکتا اور سائے کے تعاقب کی عادی سیاسی و مذہبی قیادت کا ذہنی کھوکھلا پن بھی سادہ لوح اکثریت سے پوشیدہ رہتا ہے۔

بھٹو کو دنیا سے ہٹانے کے حق میں ایک تاویل یہ پیش کی جاتی تھی کہ اس جیسوں کے ہوتے پاکستان اپنی نظریاتی منزل کبھی حاصل نہ کر پائے گا۔ لیکن پھانسی کے 38 برس بعد بھی کسی ماتھے پر عرقِ ندامت نہیں کہ نام نہاد نظریاتی ٹرے میں سجے بنیادی مسائل ریلے ریس کے ڈنڈے کی طرح لایعنیت کے ٹریک پر بھاگتی ایک نسل سے دوسری نسل کو جوں کے توں تھمانے کے سوا کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
البتہ اتنی پیش رفت ضرور ہوئی کہ وہ پاکستان جو دولختی کے باوجود بھٹو دور تک بطور ایک سخت جان سٹیٹ جانا جاتا تھا، اگلے 38 برس میں یہ پاکستان نان سٹیٹ اور ریل اسٹیٹ ایکٹرز میں بٹ بٹا گیا ۔

38 برس پہلے کی نوجوان نسل کا آئیڈیل بھٹو تھا، 38 برس بعد ممتاز قادری ہے۔ 38 برس پہلے مولوی اپنے پہ بنائے لطیفے بھی خوش دلی سے سنایا کرتا تھا، 38 برس بعد مذہب کے ٹھیکیداروں نے نے سماج کو ہی زندہ لطیفہ بنا ڈالا۔

38 برس پہلے باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ خطِ مستقیم میں سفر کرنے کی عادی تھی، آج گول گول گھوم کے تھکنا سفر کہلاتا ہے۔

رہے بھٹو کے گدی نشین، تو ان کے لیے بھٹو کوئی شخصیت نہیں ایک ٹکسال ہے جو 24 گھنٹے چلنے کے باوجود مالی و اقتداری شکم کی آگ بجھانے میں ناکام ہے۔

بھٹو کا دوسرا نام کئی برس سے ’چلو چلو لاڑکانہ چلو‘ پڑ چکا ہے۔ بھٹو سالگرہ کے کیک اور برسی کی بریانی میں پایا جاتا ہے۔ بھٹو کہنہ سال پیپلز فورٹ میں مقید نکمے شہزادوں کی سیاسی پنشن بک ہے۔ بھٹو پیپلز پارٹی کے میوزیم میں سجا مجسمہ ہے جیسے لاہور میوزیم میں فاسٹنگ بدھا۔

اچھا ہوا بھٹو کو 38 برس پہلے پھانسی لگ گئی۔ کم ازکم یہ تو معلوم ہے کس نے لٹکایا۔ بھٹو کی بیٹی کو تو قاتل کا نام جاننے کی لگژری بھی نصیب نہ ہو سکی۔

ان 38 برسوں میں بتدریج ذہنی ٹریجڈی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوئی جو آج گلی گلی کھلے بالوں گھوم رہی ہے ’میں زندہ ہوں ، میں زندہ ہوں۔‘ کوئی نہیں جو اسے ایدھی شیلٹر ہوم کا راستہ ہی سجھا دے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

جمعہ، 4 مارچ، 2016

ایم کیو ایم کیسے ٹوٹے گی؟ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو


دنیا میں جو بھی جماعتیں یا گروہ کسی ایک شخص یا نظریے کے گرد گھومتی ہیں انھیں باہر سے توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

جیسے ہی بیرونی چوٹ پڑتی ہے جماعت اپنے اکلوتے رہنما یا نظریے سے مزید چمٹ جاتی ہے اور کچھوے کی طرح گردن اندر کر کے دفاعی انداز اختیار کر لیتی ہے، اور جیسے ہی حملہ ختم ہوتا ہے گردن باہر نکال لیتی ہے۔ اگر ایسی جماعت یا گروہ کو کیچوے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر بھی دیا جائے تو ہر ٹکڑا الگ الگ کیچوا بن جاتا ہے۔

بیرونی مثالیں دیکھنی ہوں تو افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کو لے لیجیے۔ جنوبی افریقہ کی گوری اقلیتی حکومت نے اے این سی کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے مگر اے این سی میں نیلسن منڈیلا کی شخصیت کے سبب شگاف نہ پڑ سکا۔اگر منڈیلا کو ہلاک کر دیا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ ونی منڈیلا اسے نہ سنبھال پاتیں اور اے این سی سیاسی جد و جہد اور مسلح جد و جہد کے حامیوں میں بٹ جاتی۔

جو جماعتیں کسی خاص شخصیت کی بجائے کسی نظریے سے جڑی ہوتی ہیں انھیں باہر سے توڑنا کتنا محال ہے اس کی ایک مثال اخوان المسلمون ہے۔ سنہ 1928 میں اپنی تاسیس سے آج تک یہ جماعت عرب دنیا میں مسلسل متشدد خارجی دباؤ کا شکار ہے مگر کوئی عرب حکومت اسے کلیتاً ختم نہ کر پائی اور اخوان کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ سیاسی طور پر ابھر آتے ہیں۔

اس تناظر میں پاکستان کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ حصے بخرے مسلم لیگ کے ہوئے، کیونکہ پاکستان بننے کے بعد یہ نہ تو کوئی ٹھوس نظریاتی جماعت رہی اور نہ ہی محمد علی جناح کے بعد کسی ایک شخصیت کے مدار میں رہی۔

اس کے برعکس نیشنل عوامی پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی سرخ پوش دنوں سے ہی شخصیت پرستی اور نظریے کو ساتھ لے کر چلتی رہی۔ یعنی باچا خان کا نظریہ اور باچا خان کا خاندان۔ چنانچہ متعدد بار پابندی لگنے یا کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود وہ آج بھی اپنا سیاسی کردار ادا کر رہی ہے۔


عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمان سے پہلے تک شخصیت پرست نہیں تھی اور نہ ہی شدید قوم پرست۔ مگر اگرتلہ سازش کیس کے بعد سے شیخ مجیب اور عوامی لیگ اور بنگالی نیشنل ازم لازم و ملزوم ہوگئے۔ انتخابات جیتنے کے بعد بھی جب اسٹیبلشمنٹ نے عوامی لیگ کو ہر حربے سے دبانے کی کوشش کی تو پارٹی کے اندر جو طبقہ مجیب کی انتہا پسندی ایک خاص حد تک آگے جانے کا مخالف تھا وہ مجیب سے بھی زیادہ انتہاپسند ہو گیا اور پھر طاقت کے زور پر عوامی دریا کا رخ اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کا انجام سب نے دیکھ لیا۔

پیپلز پارٹی روزِ اول ہی سے ذوالفقار علی بھٹو کا دوسرا نام تھی۔ پارٹی اقتدار میں نہیں تھی تب بھی بھٹو ہی تھا، اقتدار میں آئی تب بھی بھٹو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بنے رہے۔ ان کی سخت گرفت کے ہوتے پارٹی میں گروہ بندی ممکن نہیں تھی۔ احمد رضا قصوری اور غلام مصطفی کھر بھی پارٹی سے علیحدہ ہو کر کچھ نہ کر سکے۔


اگر جنرل ضیا کا خیال تھا کہ بھٹو کے منظر سے ہٹتے ہی پارٹی بھی ٹوٹ جائے گی تو یہ صرف اس صورت میں ممکن تھا اگر بےنظیر بھٹو اور نصرت بھٹو سامنے نہ ہوتیں۔ چنانچہ ایک عام کارکن کے اندر بھٹو کے بعد کوئی سیاسی کنفیوژن پیدا نہیں ہوا۔ اس کے لیے بھٹو کی روح ماں اور بیٹی میں خود بخود منتقل ہوگئی اور کوثر نیازی کی پروگریسو پیپلز پارٹی، غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اور بہت بعد میں فیصل صالح حیات کی پی پی پی پیٹریاٹ کی بھٹو خاندان کے سامنے ذرا بھی دال نہ گل سکی۔

اگر پیپلز پارٹی کمزور ہوئی بھی تو بےنظیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد اپنی اندرونی بے اعتدالیوں کے سبب۔ چنانچہ آج کی پیپلز پارٹی صرف اپنی وجہ سے صوبہ سندھ میں قید ہے کسی بیرونی جبر کے سبب نہیں۔

ایم کیو ایم روزِ اول سے الطاف حسین کا دوسرا نام اور شخصیت پرستی کے اعتبار سے یہ پاکستان کی سب سے قابلِ ذکر جماعت ہے۔ تین آپریشن اسے باہر سے ختم نہیں کر سکے۔ عظیم احمد طارق، آفاق احمد، جناح پور، را کے ایجنٹ، عمران فاروق قتل کیس، منی لانڈرنگ اور بھتہ گیری سمیت سب طرح کے حالات و واقعات و شخصیات و الزامات کے باوجود ایم کیو ایم کا ووٹ بینک جوں کا توں ہے۔ پارٹی کا ڈھانچہ ایسا لچکدار ہے کہ آپریشنوں کے دوران وقتی طور پر تو یہ دب جاتی ہے لیکن جیسے ہی دباؤ کم ہوتا ہے پھر سے ابھر آتی ہے۔

اب مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی صورت میں ایک اور کوشش زیرِ تعمیر ہے۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ ووٹ بینک کیسے ٹوٹے گا؟ فی الحال اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

الطاف حسین کے منظر سے ہٹنے کے بعد عین ممکن ہے کہ ایم کیو ایم میں نظریاتی اور سٹرکچرل تبدیلیاں آئیں، ہو سکتا ہے یہ پارٹی ایک سے زائد دھڑوں میں بٹ جائے، مگر جو بھی اچھا برا نتیجہ برآمد ہوگا پارٹی کے اندر سے ہی ہوگا، پیراشوٹی کوششوں سے نہیں ہوگا۔

شاید اس بار بھی ایم کیو ایم کا قبلہ درست کرنے کے معاملے میں جلد بازی دکھا دی گئی ہے۔

ہفتہ، 13 فروری، 2016

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا: وسعت اللہ خان

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجان: وسعت اللہ خان

(بشکریہ ایکسپریس) پاکستان میں موجود چھ بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں نے اپنی طبی مصنوعات کی قیمتوں میں پندرہ فیصد یکطرفہ اضافہ کردیا۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو بھی یہ اطلاع میڈیا ہی سے ملی کہ جس کا کام ہی دواؤں کی قیمتوں کو باقاعدہ اور دوا ساز کمپنیوں کو قابو میں رکھنا ہے۔کہتے ہیں دو ہزار تیرہ میں بھی دواساز کمپنیوں نے ایسے ہی پندرہ فیصد قیمت بڑھائی تھی۔

اب چند دن حسب ِ روائیت عوامی حلقے شور مچائیں گے ، بی کیٹگری کے پریس ریلیزی سیاستداں سنگل کالمی مذمت چھپوائیں گے ، دوا ساز کمپنیوں کے ترجمان خام مال کی مہنگائی کا رونا روتے ہوئے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں دواؤں کی سستائی ثابت کرنے والے جدول اور چارٹ دکھائیں گے ، پیچیدہ اصطلاحات کی جلیبی بنا کر ٹی بی زدہ شیدے ، ڈائلسس زدہ حمیدہ ، بائی پاس زدہ کمالو ، سردرد زدہ چمن علی اور رعشہ زدہ مختاراں کو سمجھائیں گے کہ جو کچھ بھی اضافہ ہوا وہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

آخر کو ہمیں بھی خدا کو منہ دکھانا ہے ، کیا ہمارے دل نہیں دکھتے ایسے فیصلے کرتے وقت ، کیا ہمارے بال بچے بیمار نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔اور ڈرگ کنٹرول اتھارٹی ایک بار پھر کندھے اچکا کے دیگر ضروری کاموں کی ریت میں گردن چھپا لے گی۔یوں سب کے سب دواؤں کی قیمتوں میں اگلے یکطرفہ اضافے تک ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔

مگر میرا مقدمہ کچھ اور ہے۔بات دوا کے مہنگے سستے ہونے سے زیادہ یہ ہے کہ جن دواؤں کا اسٹاک ریٹ بڑھانے سے پہلے ہی سے بازار میں پڑا ہے کیا اسے پرانے ریٹ پر ہی رہنے دیا جائے گا یا بازار سے اٹھوا کر نئی قیمت کا ٹھپہ لگا کر پھر لایا جائے گا۔اس سوال کا سو فیصد جواب ہے کہ ہاں ایسا ہی ہوگا۔ ثبوت یہ ہے کہ جن دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، ان کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ جوں جوں اضافی قیمت کے ٹھپے لگتے جائیں گے توں توں وہ بازار میں دستیاب ہوتی چلی جائیں گی۔

میری بلا سے سردرد کی پیٹنٹ گولی دس روپے کی آئے کہ سو کی۔ مجھے تو کوئی بس یہ بتا دے کہ کیا دس روپے کی گولی بیس روپے کی ہونے کے بعد خالص ملے گی ؟ یہ سوال یوں آ رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں جعلی دواؤں کا تناسب چالیس سے پچاس فیصد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ چند بڑے شہر چھوڑ کے قصبات اور دیہات دو نمبر بلکہ تین نمبر دواؤں کی سلطنت ہیں۔ورنہ جگہ جگہ کاہے کو سننا پڑے کہ بس فلاں میڈیکل اسٹور سے دوائیں خریدنا اور کہیں سے مت لینا۔

میرا مسئلہ دواؤں کی قیمت آسمان چھونے سے زیادہ یہ ہے کہ مہنگی ہونے کے بعد کیا اسپتالوں کو ایکسپائرڈ دواؤں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ہوسکتا ہے دوا ساز کمپنیاں کہیں کہ ہم تو صرف دوائیں بناتے ہیں۔یہ ذمے داری تو ہول سیلرز کی ہے کہ وہ ایکسپائرڈ یا نان ایکسپائرڈ کا خیال رکھیں۔اور ہول سیلرز یہ کہیں گے کہ کمپنیاں ہم سے ایکسپائرڈ دوائیں واپس نہیں لیتیں تو ہم کیا کریں ؟

یہ بات تو طے ہے کہ دوائیں ایک خاص تاریخ کے بعد استعمال نہیں کی جاسکتیں۔مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر ان دواؤں کاآخر ہوتا کیا ہے ؟ میں نے منوں ٹنوں منشیات تلف ہونے یا سیکڑوں لیٹر شراب سے بھری بوتلیں بلڈوزروں سے کچلے جانے کی تصاویر تو بے شمار دیکھی ہیں لیکن آج تک حسرت ہی رہی کہ کوئی دوا ساز کمپنی ، کوئی ہول سیلر ، کوئی محکمہ صحت ، کوئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی یہ شایع تصویر بھی دکھا دے کہ ایکسپائرڈ دواؤں کے ذخیرے کو برسرِ عام تلف کیا جارہا ہے۔تو پھر یہ سب کہاں جاتی ہیں ؟ کہیں تو جاتی ہی ہوں گی اور وہاں سے ہمارے جسموں میں ہی آتی ہوں گی۔

کیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کسی دوا ساز کمپنی کو طے شدہ میکنزم سے انحراف پر سزا دے سکتی ہے ؟ شائد سزا کا ڈھانچہ موجود ہے مگر اس ڈھانچے کو کتنی بار زحمت دی گئی۔

مان لیاڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے بالا بالا دواؤں کی قیمت نہیں بڑھائی جاسکتی لیکن خود اتھارٹی کی منظوری سے بھی جو قیمت بڑھتی ہے اس میں کتنی شفافیت ہوتی ہے ؟ میں سن اسی کے عشرے کے آخری برسوں کے ایک وزیرِ صحت سے واقف ہوں جو ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے قیمتوں میں اضافہ کرانے کے چند دن بعد ملک سے ایسے چمپت ہوئے کہ زندگی میں واپس نہ لوٹے۔اس زمانے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ دس کروڑ روپے جس وزیر کو یکمشت ہاتھ آجائیں اسے پاکستان میں رہنے کی ضرورت ہی کیا۔تو پچھلے ستر برس میں کیا اپنی نوعیت کا یہ ایک ہی کیس ہوا ہوگا ؟

چلیے گولی ماریں سردرد کی گولی بنانے والے گولی بازوں کو۔اس پاکستان میں کتنے کاروباری ہیں جو منافع کا موقع سامنے ہو اور وہ اس پر شبخون نہ ماریں ؟کیا پٹرول کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کے بعد چوبیس گھنٹے کے لیے پٹرول پمپ بند نہیں ہوتے ؟ کیا پرانے پٹرولیم ، ڈیزل اور گیس اسٹاک کو پرانی قیمت پر ہی خالی کیا جاتا ہے ؟رمضان کے مہینے میں کیا ہوتا ہے ؟ کون کون مسلمان کاروباری روزے کے ثواب کو روزی کی چاندی سے نہیں بدلتا اور آخری دس روز میں عمرے کی فلائٹ نہیں پکڑتا ؟

یہ پی آئی اے کی ہڑتال تو ابھی کی بات ہے۔اس ہڑتال کے ستائے ہزاروں پسنجروں کی دیگر ایرلائنز نے جس طرح مدد کی وہ ہماری تہذیبی و اخلاقی روایات کے پنے پر سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے۔کراچی اسلام آباد ریٹرن ٹکٹ جو عام دنوں میں پندرہ سے پچیس ہزار روپے کے درمیان رہتا ہے ، ہڑتال کے پہلے دو دنوں میں چون ہزار روپے تک جا پہنچا۔یعنی ایک عام پاکستانی مسافر کے کپڑے پی آئی اے کی ہڑتال نے اتار لیے اور کھال دیگر فضائی کمپنیوں کے ہاتھ آئی۔کیا کوئی مونو پلی کمیشن ، کوئی ایف آئی اے ، کوئی نیب ، کوئی محتسب ، کوئی حکومت حرکت میں آئی، صرف یہ بتانے کے لیے کہ ’’ کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے ، کوئی تہذیب ہوتی ہے ‘‘۔

میرے پاس اس وقت کچھ نہیں بچا مزید سوچنے کو لکھنے کو علاوہ اس ہزار بار سنی پھٹیچر کہانی کے۔

’’ بادشاہ کے لشکر نے ایک گاؤں کے نزدیک پڑاؤ ڈالا۔ خیمے تن گئے۔گوشت چولہوں پے چڑھ گیا۔بادشاہ نے شاہی کارندے کو دوڑایا کہ گاؤں سے نمک خرید لاؤ۔کسی لال بھجکڑ درباری نے پوچھا حضور نمک جیسی حقیر شے خریدنے کی کیا ضرورت۔گاؤں والے ویسے ہی ڈلے کے ڈلے لے آئیں گے۔آخر کو آپ ان کے بادشاہ اور وہ رعایا ہیں۔بادشاہ نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا اگر میں نے نمک جیسی بے قیمت شے بھی مفت حاصل کرنے کی اجازت دے دی تو اسے مثال سمجھ کے میرا لشکر پورے گاؤں کو مفت کا مال سمجھ کے اجاڑ ڈالے گا۔

مگر یہ پرانے دور کی کہانی ہے جب بادشاہ کی چلا کرتی تھی۔اب تو بادشاہ خود چابی سے چلتا ہے۔ان حالات میں دواؤں کا طالب مریض ہو ، کہ سستی کھاد کا منتظر کسان ، کہ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے والا بے روزگار ، کہ اپنی تنخواہ میں ہی گذارہ کرنے والا صابر و سادہ پوش۔، ان سب کے لیے ایک ہی پیغام ہے۔اناللہ وانا الیہہ راجعون۔۔

اتوار، 7 فروری، 2016

نجکاری ہضم ہوجاتی ہے جھوٹ نہیں : وسعت اللہ خان

6 فروری 2016
کسی نے فیس بک پر لکھا ہے کہ ’’پی آئی اے ملازمین کام کریں تو ملک کو اربوں کا نقصان اور کام نہ کریں تو ایئر لائن کو کروڑوں کا نقصان۔ جائیں تو جائیں کہاں‘‘ …

نجکاری آج کل دنیا بھر میں فیشن ہے۔ کیونکہ اس سے ریاست کا بوجھ کم ہو جاتا ہے مگر اختیار و طاقت وہی رہتی ہے۔ کام نیا نہیں مگر نئے انداز میں ہو رہا ہے۔ بس شراب کی بوتل بدل گئی ہے۔ بادشاہ لگان لینے خود تھوڑا جاتا تھا۔ منصب داروں، صوبے داروں، دس ہزاریوں، پنج ہزاریوں کو گاؤں کے گاؤں بخش دیتا تھا۔ یہ منصب دار بادشاہ کو عندالطلب مالی و افرادی قوت فراہم کرتے تھے اور اس کے عوض پرجا کی کھال کھینچ لینے کی پوری اجازت ہوتی۔ انگریز نے اس آرٹ کو ذرا مہذب بنا دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقبوضہ علاقے مقامی طاقتور ’’پارٹیوں‘‘ کو ٹھیکے پر دینے شروع کر دیے۔

یعنی فلاں علاقے میں جمع کردہ مالیے کا ایک کروڑ روپیہ سرکار کے خزانے میں جائے گا۔ اس کے بعد مالیہ جمع کرنے والا قانونی غنڈہ جاہل کسان سے جو کھینچ سکے وہ اس کا۔ چنانچہ کسان کے پاس اکثر علاقوں میں بس اپنی کھال اور محنت کے قابل رکھنے کے برابر روٹی بچ جاتی تھی۔ جیسے گدھے کو چارہ…

کبھی کبھی سرکار کو ایمرجنسی میں غلے یا دیگر زرعی اجناس کی ضرورت پڑتی تو یہی نیلامیے، ٹھیکیدار اور پنج ہزارئیے کام آتے اور سارا غلہ چھین کر کمیشن کھرا کرتے یا حاکم سے قربت کی قیمت کے طور سرکار کے حوالے کر دیتے۔ چنانچہ قحط پڑ جاتا اور لاکھوں لوگ مر جاتے۔ مگر فرق اس لیے نہیں پڑتا تھا کہ مویشی اور نچلا طبقہ بچے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں محنت کش ہاتھوں کی نئی لہلہلاتی فصل کٹنے کے لیے کھڑی ہو جاتی۔ (جیسے آج کل برڈ فلو میں لاکھوں مرغیاں مر جاتی ہیں مگر گوشت کی پیداوار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ اس اعتبار سے پچھلے ادوار کے قحط کو آپ انسانی برڈ فلو سمجھ لیجیے)۔

آج خیر سے ریاست بھی مہذب ہے اور طور طریقے بھی۔ نجکاری کی کڑوی گولی کو ایسے لذیز اصطلاحاتی قلاقند میں ڈال کے دیا جاتا ہے کہ بندہ خود آگے بڑھ کے کہے آؤ مجھے بھی بیچ دو۔

یہ قحط و بھک مری کا نہیں فوڈ ان سیکیورٹی کا دور ہے۔ بیروزگاری کی جگہ ڈاؤن سائزنگ اور ری ٹرینچ منٹ (شاخوں کی قطع برید) سکہ رائج الوقت ہے۔ اداروں کو بیچا نہیں جاتا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا نام دے کر ریاستی بابل کے گھر سے رخصت کیا جاتا ہے۔ کمپنیوں کا کنٹرول کسی سیٹھ (اسٹرٹیجک پارٹنر) کے حوالے نہیں کیا جاتا بلکہ ایک چوتھائی شراکت داری کے عوض بقیہ پچھتر فیصد کی قسمت کے فیصلے کے اختیارات پارٹنر صاحب کو سونپے جاتے ہیں۔ ادارے کا رشتہ بھی ریاست ڈھونڈتی ہے اور حق مہر بھی ریاست طے کرتی ہے اور یہ حق مہر وصولتی بھی خود ہے۔

اکثر تصویر کسی کی دکھائی جاتی ہے نکاح کسی اور سے ہوتا ہے۔ رخصتی سے پہلے ادارے کی دلہن کو یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ نئے گھر میں راج کرے گی۔ دولہا والے بھی یقین دلاتے ہیں کہ اسے بیٹیوں کی طرح رکھا جائے گا۔ ریاست بھی کتاب ِآئین کے سائے میں بوقتِ رخصتی سرگوشی کرتی ہے کہ بیٹا پریشان مت ہو نا اگر کوئی اونچ نیچ ہوئی تو ہم ہیں نا… اور پھر دلہن کھیڑیاں دے نال ٹر جاندی ہے…

پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی وغیرہ یاد ہیں نا۔ کیسے کیسے سبز باغ دکھائے گئے تھے۔ کیا بہتری آئی اور عوامی مشکلات میں اس ’’کارپوریٹ متعہ‘‘ کے سبب کیا کمی آئی۔ سوائے یہ کہ ان گائیوں کو نئے مالکان نے نت نئے تجارتی منافع جاتی ہارمونز کے انجکشن لگا کر خود تو دوگنا دودھ حاصل کر لیا اور گائے کو بس چارہ ملا اور کمیشن سودا کرانے والے دلالوں کی جیب میں گیا۔

شیخ رشید کی کوئی بات بھی قابل ِ غور نہ سہی پر یہ بات قابلِ غور ہے کہ پی آئی اے بیچی نہیں خریدی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹرٹیجک پارٹنر بننے والی فرنٹ کمپنی کوئی اور ہو اور اس کمپنی کے پیچھے اصل آدمی یا ادارہ کوئی اور ہو۔ جب نواز شریف وزیرِ اعظم نہیں بنے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے سے اگر بدانتظامی اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے تو ادارہ آج بھی پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ لیکن جب وہ تیسری بار وزیرِ اعظم بنے تو بیمار ایئر لائن کے دوا دارو میں ہاتھ بٹانے کے بجائے سالم بوئنگ ٹرپل سیون دو دو ہفتے تک بیرونی دوروں میں استعمال ہونے اور آن بورڈ طرح طرح کے کھابوں کے فرمائشی مینیوز کی خبریں بلا تردید شایع ہوتی رہیں۔

یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ سرکاری اداروں کے لیے رعایتی ٹکٹ کی سہولت ختم کر دی جاتی۔ کارِ سرکار کے نام پر ان اللوں تللوں سے پرہیز کے باوجود پی آئی اے کے تین سو ارب روپے مالی خسارے کی صحت پر کوئی خاص اثر نہ پڑتا مگر وزیرِ اعظم اور سرکاری اداروں کی جانب سے ایک علامتی ہمدردی اور تعاون کا اظہار ضرور ہو جاتا۔ آج لیگی حکومت کے بھونپو کہتے ہیں کہ پی آئی اے سمیت کئی اداروں کی نجکاری تو ہمارے منشور کا حصہ تھی۔

اگر منشور کا حصہ تھی تو پھر چور دروازے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دو ہزار چودہ کے موسمِ سرما میں آپ نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا کہ دسمبر تک نجکاری کر دیں گے۔ پھر آپ نے دو ہزار پندرہ کے موسمِ گرما میں وعدہ کیا کہ دسمبر تک کر دیں گے۔ پھر آپ نے کہا مارچ دو ہزار سولہ تک ہو جائے گی اور اب جولائی سے پہلے تک یہ عمل مکمل کرنے کا وعدہ کر کے آئی ایم ایف کی لگ بھگ پانچ سو ملین ڈالر کی نئی قسط حاصل کر لی گئی ہے۔

اور ان دو برس کے بیچ آپ پی آئی اے کے ملازمین اور پارلیمنٹ کو یقین دلاتے رہے کہ ہم نجکاری تھوڑا کر رہے ہیں ہم تو اسے خسارے سے نکالنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ ہم تو محض چند شئیرز فروخت کر رہے ہیں تا کہ اس مالی انجکشن سے پی آئی اے کی صحت بہتر ہو سکے۔ آئی ایم ایف سے دو برس قبل کیے جانے والے نجکاری وعدے کے باوجود اب تین ماہ پہلے تک وزیرِ اعظم پی آئی اے ورکرز کو یقین دلاتے رہے کہ وہ تندہی سے کام کریں تو ہم نجکاری نہیں کریں گے۔ تو پھر ہوابازی کے مشیر شجاعت عظیم نے کس اختلاف پر استعفی دیا۔ سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے معاملات پر یکطرفہ فیصلے کرنے سے کیوں منع کیا۔ پی آئی اے کے مستعفی چیرمین ناصر جعفر کے بحالی منصوبے پر کتنا کان دھرا گیا۔

ایک وزیر یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ہاں نجکاری کی جا رہی ہے اور دوسرا کیوں کہہ رہا ہے کہ نجکاری نہیں بلکہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ لائی جا رہی ہے۔ کیا آپ نے آئی ایم ایف کو بے وقوف بنایا ہے یا پارلیمنٹ اور پی آئی اے کو۔ اور ایک نجی ایئرلائن کا مالک وفاقی کابینہ میں کیا کر رہا ہے؟

جب کہنے بتانے سننے کو کچھ نہ رہے۔ جب لوگوں کا یقین اکھڑنے لگے تو پھر قائل کرنے کے لیے ڈنڈا، آنسو گیس اور گولی ہی رہ جاتی ہے۔ گولی تو گولی ہے بھلے مارشل لا میں چلے یا جمہوریت کے پیچھے چھپ کر۔

ہاں پی آئی اے کی نجکاری ہو جائے گی۔ ثبوت یہ ہے کہ جس دن گولی چلی اس روز کراچی اسٹاک ایکسچینج میں پی آئی اے کے سترہ لاکھ شیئرز کی خرید و فروخت ہوئی۔ اگلے دن جب فلائٹ آپریشن ٹھپ ہوا تو اسی اسٹاک ایکسچینج میں پی آئی اے کے سات ملین شیئرز کی خرید و فروخت ہوئی۔ ان دو روز میں ان شیئرز کی قیمت میں لگ بھگ پونے دو روپے کا اضافہ ہوا۔ کہتے ہیں سرمائے کا پرندہ بدامنی برداشت نہیں کر پاتا مگر یہ کیسی بدامنی ہے کہ سرمائے کے پرندے نے پر تک نہ پھڑ پھڑائے۔ نجکاری کا عمل تو جلد یا بدیر ذہن سے محو ہو جائے گا لیکن جھوٹ کی سرمایہ کاری عرصے تک یاد رہے گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

منگل، 5 مئی، 2015

پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا…

پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا… وسعت اللہ خان

دو روز پہلے عالمی یومِ صحافت کے موقع پر موقر بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ایک آزادی اعشاریہ ( فریڈم انڈیکس ) جاری کیا جس کے مطابق گذشتہ برس دنیا کے ایک سو اسی ممالک میں اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق کی تین ہزار سات سو انیس پامالیاں ہوئیں جو سال دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں آٹھ فیصد زائد ہیں۔گذشتہ برس صحافیوں کی جان کو سب سے زیادہ خطرہ شمالی افریقہ سے مشرقِ وسطی تک پھیلی ہوئی شدت پسند تنظیموں ( بوکو حرام ، داعش وغیرہ ) اور جنوبی امریکا کی جرائم مافیا کی طرف سے لاحق رہا۔اس انڈیکس کے مطابق آزادیِ صحافت کے اعتبار سے بہترین ممالک فن لینڈ ، سویڈن ، ناروے اور ڈنمارک اور بدترین ممالک اریٹیریا ، ترکمانستان ، ایران ، شام ، چین اور شمالی کوریا ہیں۔

گذشتہ برس بھی پاکستان آزادیِ صحافت کی انڈیکس میں نچلی سطح پر رہا یعنی ایک سو انسٹھویں درجے پر اور یہ درجہ سال دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں اور ابتر ہوا جب پاکستان اسی انڈیکس میں ایک نمبر اوپر یعنی ایک سو اٹھاونوی پوزیشن پر تھا۔

صحافیوں کے تحفط کے لیے کام کرنے والی ایک سرکردہ عالمی تنظیم سی پی جے ( کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ) کے مرتب اعداد و شمار کے مطابق انیس سو بانوے سے دو ہزار چودہ کے بائیس برس کے دوران دنیا بھر میں گیارہ سو تئیس عامل صحافی ہلاک ہوئے۔اس عرصے میں سب سے زیادہ صحافی عراق (ایک سو چھیاسٹھ )، شام (اسی )، فلپینز (ستتر) اور روس اور پاکستان ( چھپن فی ملک ) میں مارے گئے۔تنظیم کے مطابق دو ہزار نو سے چودہ تک کے پانچ برس میں پندرہ پاکستانی صحافیوںاور لکھاریوں کو جان کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا۔ پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور مذہبی ، سیاسی و نسلی نان اسٹیٹ ایکٹرز سے صحافیوں کو یکساں خطرہ ہے اور پچھلے پانچ برس میں یہ خطرہ مزید بڑھا ہے۔چنانچہ اس کا براہِ راست اثر اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق پر پڑا ہے۔

حالانکہ پاکستان اب بھی ان ممالک کی ٹاپ ٹین لسٹ سے باہر ہے جہاں اطلاعات تک رسائی بہت مشکل ہے مگر خطرہ یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ مجوزہ سائبر کرائمز ایکٹ کا موجودہ مسودہ جوں کا توں منظور کرلیتی ہے تو پھر سیکیورٹی اداروں کو ہر طرح کا آئی ٹی ڈیٹابلا عدالتی وارنٹ اپنی تحویل میں لینے اور صوابدیدی سنسر کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔

یہ تو تھی بین الاقوامی تصویر۔سوال یہ ہے کہ پاکستان میں لکھنے اور بولنے کی آزادی کے مسلسل سکڑاؤ میں صحافیوں اور ان کے اپنے اداروں کا کیا کردار ہے اور اگر اس کے خلاف مزاحمت ہو بھی رہی ہے تو کہاں اور کس پیمانے پر ؟ یہ وہ بحث ہے جس میں پڑنے سے صحافیوں کی دلچسپی روز بروز کم ہورہی ہے اور آسان راستہ یہ نکالا جارہا ہے کہ اپنے مصائب کے تدارک کا سوچنے کے بجائے الزام دوسروں پے منڈھ کے سمجھ لیا جائے کہ فرض پورا ہوگیا۔

آج پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں جتنے بھی صحافی کام کررہے ہیں ان میں سے اسی فیصد وہ ہیں جو گذشتہ دس سے پندرہ برس کے دوران اس پیشے سے وابستہ ہوئے۔ اسی عرصے میں بے لگام کارپوریٹ اور کمرشل مفادات نے ادارتی مفادات کو بے دردی سے پیچھے دھکیلا۔لہذا صحافیوں کی بیشتر نئی نسل اس صحافتی کلچر سے ناواقف یا بیگانہ ہے جس میں پروفیشنل ازم کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت آئیڈیل ازم بھی شامل تھا۔چونکہ اس نسل نے با اختیار ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر دیکھا ہی نہیں لہذا اسے یہ جاننے سے بھی دلچسپی نہیں کہ کسی زمانے میں اس خبری جنگل میں ایڈیٹوریل گائیڈ لائن نامی کسی پرندے کا بھی بسیرا ہوا کرتا تھا جسے جدید عالیشان میڈیائی عمارت نے بے گھر کردیا اور اب بیشتر کام دھاڑی وار ادارتی پالیسی کے تحت مالکانہ افسر لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ان کے عہدے اور پیکیجز سن کے یوںلگتا ہے جیسے کوئی میڈیائی ادارہ نہ ہو کوئی بینک ، کارپوریشن یا فارماسوٹیکل کمپنییا فائیو اسٹار این جی او ہو۔

وہ زمانہ لد گیا جب ٹچے سے ٹچا ادارہ بھی خبری اخلاقیات کا تھوڑا بہت پابند ہوتا تھا اور خبر تب بنتی ، چھپتی یا نشر ہوتی تھی جب یقین ہوجائے کہ رپورٹر نے جن ذرایع سے خبر لی وہ قابلِ بھروسہ ہیں اور تفصیلات پیوندکاری سے پاک ہیں۔کوئی صحافی اگر راتوں رات بلاجواز خوشحالی میں نہا جاتا تو برادری اس کے بارے میں لاشعوری طور پے محتاط ہو جاتی تھی۔

پر بھلا ہو پچھلے بیس برس میں تیزی سے پروان چڑھنے والے ’’خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھلاؤ ’’ کلچر کا۔اور خیر ہو گلا کاٹ میڈیائی مسابقت کی کہ جس میں پیشہ ورانہ حلال حرام کا نظریہ عملیت پسندی کا نوالہ بن گیا۔اب تو یوں ہے کہ خبر نہیں بھی ہے تو تخلیق کر لو۔کردار نہیں مل رہا تو خود بنا لو یا بن جاؤ یا فرض کرلو۔پلانٹڈ اور غیر پلانٹڈ کے چکر میں مت پڑو ، ایکسکلوسیو پر دھیان دو تاکہ سینہ ٹھونک کر تم اور میں کہہ سکیں کہ روزنامہ پروانہ آج پھر بازی لے گیا یا یہ نیوز سب سے پہلے دھڑم دھکیل چینل نے بریک کی۔

جب ایک دفعہ بند ٹوٹ جائے یا بقول شخصے جھاکا کھل جائے تو پھر کوئی حد نہیں بچتی۔بقول رساچغتائی

صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک

پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا

کچے مکان کی دیوار کیا گری کہ سیاسی ، سرکاری ، غیرسرکاری ، مشکوک ، غیر مشکوک ہر ایک نے اپنے اپنے رستے بنا لیے۔وہ صحافی جسے کسی زمانے میں خبر کے چکر سے ہی فرصت نہ تھی اب پلاٹوں ، مراعات ، دوروں ، پبلک ریلیشننگ، فنڈنگ ، چندے ، سودے بازی ، فیورز ، تنظیمی جوڑ توڑ ، ایجنڈا سازی ، منتخب تابع داری اور لابنگ وغیرہ کے چکر میں ایسا پھنسا کہ قلم کا سارا وقار اور دبدبہ دبے پاؤں دیوار کود کے لاپتہ ہوگیا۔وہ شاخ ہی نہ رہی جس پے آشیانہ تھا۔ وہ ڈھال ہی ٹوٹ گئی جس کی مدد سے صحافی خود کو اور اپنے پیشے کو بچاتا تھا۔ چلچلاتے حالات نے صحافی اور صحافت کے ساتھ وہی کیا جو ایچ آئی وی جسم کے دفاعی نظام کے ساتھ کرتا ہے۔یعنی ڈیفنس میکنزم اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ معمولی سے معمولی وائرس بھی بے دھڑک جان لیوا حملہ کردے۔

یہی صحافی تھے جو اب سے تیس برس پہلے تک ایک ادارے اور ایک ساتھی پر حملہ سب پر حملہ تصور کرتے ہوئے ملک گیر مزاحمت پر یقین رکھتے تھے۔لیکن اب اس دیوار میں اینٹوں سے زیادہ شگاف ہیں۔اب کوئی نہیں کہتا کہ یہ بندہ فلاں اخبار یا نشریاتی ادارے میں کام کرتا ہے۔بلکہ یہ تعارف کرایا جاتا ہے کہ یہ ہیں جنابِ پنگا بیروی۔بہت باکمال و باعزت صحافی ہیں کیونکہ ان کے رابطے فلاں فلاں خوفناکوں سے ہیں۔

اور یہ ہیں جناب کمرشل اجنالوی جو پیدل آئے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے ماشاللہ اپنی محنت سے بزورِ قلم دو تین برس میں وہ مقام بنایا کہ آج قصرِ اجنالہ کے مالک ہیں ، فلانا ریسٹورنٹ بھی انھی کا ہے ، ڈھماکا پرائیویٹ اسکول بھی آپ ہی کے دم سے ہے لہذا حاسدوں سے بچاؤ کے لیے باوردی گارڈز بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور برسوں ہوگئے جب بھائی کمرشل نے گھر والوں کے ساتھ ڈنر کیا ہو۔فرصت ہی نہیں ملتی پیشہ ورانہ مصروفیات اور خلق خدا اور ناخداؤں کی خدمت سے۔

ہاں یہ چیدہ چیدہ مثالیں ہیں مگر ان چیدہ چیدہ مثالوں نے ان ہزاروں صحافیوں اور میڈیائی کارکنوں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے جنھیں منہ مانگی تنخواہ تو کیا ملے گی منہ دکھائی کے برابر پیسے بھی نہیں ملتے اور ملتے بھی ہیں تو توڑ توڑ کے ، لیٹ لیٹ کے۔اور پھر ان بجھے چہروں سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ صمیمِ قلب سے پیشہ ورانہ ذمے داریاں روایتی جرات کے ساتھ نبھائیں اور اپنا اور اپنے ادارے کا نام روشن کریں۔

جب اپنا ہی یہ حال ہوجائے تو پھر کس منہ سے آزادی و غلامیِ صحافت پر بات ہو یا مزاحمت کے بارے میں سوچا بھی جائے۔کیا یہ غنیمت نہیں کہ ہم آج بھی بازؤں پر چند گھنٹے کے لیے سیاہ پٹیاں باندھ کے خود پر علامتی افسردگی طاری کرلیتے ہیں اور پنجرے سے کم ہوجانے والی ایک اور مرغی کی یاد میں ساٹھ سیکنڈ کی تعزیتی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں بڑا افسوس ہوا۔بہت اچھا ساتھی تھا ہمارا۔۔۔

اشاعت بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں