جاوید چوہدری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جاوید چوہدری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 21 اپریل، 2016

چھوٹو گینگ میاں شہباز شریف اور پنجاب پولیس کا پہلا ٹیسٹ تھا اور بدقسمتی سے: جاوید چوہدری


ناکام کپتان
جاوید چوہدری : ایکسپریس۔ منگل 19 اپريل 2016

چھوٹو گینگ میاں شہباز شریف اور پنجاب پولیس کا پہلا ٹیسٹ تھا اور بدقسمتی سے پنجاب پولیس اور میاں شہباز شریف دونوں اس ٹیسٹ میں ناکام ہو گئے، دونوں بری طرح ’’ایکسپوز‘‘ ہو گئے، کیسے؟ ہم اس کے جواب سے پہلے غلام رسول عرف چھوٹو کو ڈسکور کریں گے۔



غلام رسول راجن پور کی تحصیل روجھان کے ایک گائوں سے تعلق رکھتا تھا، باپ دادا چند ایکڑ زمین کے مالک تھے، یہ چند ایکڑنسلوں سے ان کا نان نفقہ تھے، غلام رسول کے دو بھائی تھے، پیارے خان اور رسول بخش، دوسرا بھائی رسول بخش شوبی کہلاتا تھا، صادق آباد کے تھانے ماچھکہ کی حدود میں دو قبائل رہتے ہیں، چاچڑ اور کوش! یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے دشمن ہیں،چاچڑ قبیلے کے ایک شخص قابل چاچڑ نے کوش قبیلے کی ایک خاتون سے تعلقات استوار کر لیے، یہ خبر نکلی تو قبائلی روایات کے مطابق کوش قبیلے نے چاچڑ قبیلے کے ملزم کو ’’کالا‘‘ قرار دے دیا، یہ لوگ مقامی زبان میں کالے کے بدلے کو ’’چٹی‘‘ کہتے ہیں۔

چاچڑ قبیلے نے چٹی دینے سے انکار کر دیا، کوشوں کو غصہ آ گیا اور انھوں نے قابل چاچڑ کو قتل کر دیا، چاچڑوں نے کوشوں پر حملہ کر دیا، حملے میں کوش قبیلے کے 8 لوگ قتل ہو گئے، غلام رسول کا بھائی شوبی چاچڑوں کا دوست تھا، چاچڑ گائوں سے بھاگ گئے اور بھاگتے ہوئے اپنے بچے شوبی کے پاس چھوڑ گئے، کوشوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے غلام رسول کے گھر پر حملہ کیا، اہل خانہ پر تشدد کیا اور گھر کو آگ لگا دی، یہ انتقام صرف یہاں تک محدود نہ رہا بلکہ انھوں نے اپنے آٹھ لوگوں کے قتل میں بھی شوبی کا نام ڈال دیا، پولیس نے شوبی کو گرفتار کر لیا، شوبی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، غلام رسول اس وقت کشمور کے ڈیرہ اڈہ کے ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا، اس کی عمر 13 سال تھی، اس کا خاندان گائوں سے بھاگ گیا اور لوگوں نے اس کے گھر اور زمینوں پر قبضہ کر لیا، یہ جیل میں بھائی سے ملنے گیا، پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اس پر موٹر سائیکل چوری کا مقدمہ بنا دیا۔

یہ تین سال جیل بھگت کر باہر نکلا تو پولیس نے پھر گرفتار کرلیا، تھانے میں تشدد کے دوران اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، اس تشدد نے غلام رسول کو چھوٹو بنا دیا، یہ پولیس کے ہاتھ سے نکل کر مختلف سرداروں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا، یہ حسین بخش مزاری کے پاس بھی رہا، نصراللہ دریشک کی سرپرستی میں بھی رہا، لالہ شیخانہ کے پاس بھی رہا اور یہ سندھ کے مشہور گینگ بابا لونگ کا حصہ بھی رہا،چھوٹو کو جیل کے تین برسوں نے بے شمار نئے دوست دیے، یہ دوست جیل سے رہا ہو کر اس کے ساتھ شامل ہوتے رہے یہاں تک کہ چھوٹو نے اپنا گینگ بنا لیا،یہ گینگ 29 برسوں تک سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں دہشت کی علامت بنا رہا، پولیس اس کا مرغوب ٹارگٹ رہی، یہ لوگ پولیس والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیتے یا پھر انھیں تشدد کے اس مرحلے سے گزارتے جس سے چھوٹو سندھ اور پنجاب کے تھانوں میں گزرتا رہا تھا۔

غلام رسول چھوٹو نے راجن پور اور رحیم یار خان کے درمیان دریائے سندھ کے ایک جزیرے پر قبضہ کر لیا، یہ علاقہ کچا جمال کہلاتا ہے، اسے کچے کا علاقہ بھی کہتے ہیں، یہ نو کلو میٹر لمبا اور اڑھائی کلو میٹر چوڑا خشکی کا ایک ٹکڑا ہے، یہ ٹکڑا چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہوا ہے، چھوٹو گینگ نے اس جزیرے کو اپنی سلطنت بنا لیا، پولیس نے چھوٹو کو پکڑنے کے لیے چھ آپریشن کیے لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکی، پولیس نے کچا جمال کے گرد چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں لیکن سیلاب کے موسم میں جب دریائے سندھ کا پانی چڑھ جاتا تھا اور چوکیوں کا تھانوں سے رابطہ کٹ جاتا تھا تو چھوٹو کے لوگ چوکیوں پر قبضہ کر لیتے تھے یوں سیلاب عوام کے لیے عذاب بن کر نازل ہوتاتھا لیکن یہ چھوٹو گینگ کے لیے سنہری موقع بن جاتا تھا اور یہ لوگ اپنی سلطنت کو ریاست سے دوبارہ چھڑا لیتے تھے۔

علاقے میں ان کا جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک تھا، یہ راجن پور اور رحیم یار خان میں ہونے والی ہر قسم کی ڈویلپمنٹ سے واقف ہوتے تھے، یہ پولیس کی نقل و حرکت سے بھی آگاہ ہوتے تھے، تھانوں اور جیلوں میں بھی ان کے مخبر موجود تھے، یہ گینگ سیاسی اثر ورسوخ بھی رکھتا تھا، علاقے کے لوگ یہ سمجھتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے موجودہ ایم پی اے عاطف مزاری اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی چھوٹو گروپ کے سرپرست اور سہولت کار ہیں، یہ گینگ اغواء برائے تاوان، قتل، ڈکیتی، چوری اور رسہ گیری ہر قسم کے جرم میں ملوث ہے، یہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو بھی پناہ دیتا تھا اور طالبان کے ساتھ بھی ان کے گہرے روابط ہیں، اس کے پاس جدید ترین اسلحے کے ڈھیر لگے ہیں، اس نے کچا جمال اور جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی درجنوں ٹھکانے بنا رکھے ہیں، یہ لوگ مشکل وقتوں میں روپوش ہو جاتے تھے یا پھر دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پناہ لے لیتے تھے، یہ لوگ جدید ترین ’’الیکٹرانک گیجٹس‘‘ کے استعمال سے بھی واقف ہیں۔

پنجاب حکومت نے مارچ میں پوری طاقت کے ساتھ چھوٹو گینگ کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے خود کیا، میاں شہباز شریف شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد پنجاب کے ہوم منسٹر بھی ہیں، یہ پولیس کی پاور بھی کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، میاں شہباز شریف بلاشبہ ان تھک انسان ہیں، یہ دن رات کام کرتے ہیں اور ان کاموں کو وقت پر ختم بھی کرا لیتے ہیں، یہ بھی درست ہے انھوں نے لاہور شہر کا حلیہ بدل کر رکھ دیا، آپ جب کراچی، کوئٹہ یا پشاور سے لاہور میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے، میں ان کے ترقیاتی منصوبوں بالخصوص میٹرو بس، اورنج لائین اور سڑکوں کا قائل ہوں لیکن میاں شہباز شریف میں چند خامیاں بھی ہیں، ان کی سب سے بڑی خامی ٹیم ہے، یہ ٹیم بنانے کی صلاحیت سے محروم ہیں، یہ کام لے سکتے ہیں لیکن کا م کرنے یا کام کرانے والی ٹیم نہیں بنا سکتے چنانچہ جس دن ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اس دن پورے پنجاب کی انتظامیہ بیمار پڑ جاتی ہے، یہ ٹیم کیوں نہیں بنا پاتے؟

اس کی وجہ بہت سادہ ہے! ٹیم بنانے کے لیے دوسروں پر اعتماد ضروری ہوتا ہے اور یہ دوسروں پر اعتمادنہیں کرتے چنانچہ یہ آج تک ٹیم نہیں بنا سکے، پنجاب میں ان کے بعد خلا ہی خلا ہے اور اس خلا کے آخر میں رانا ثناء اللہ آتے ہیں، آپ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے بعد کسی تیسرے وزیر کا نام بتا دیجیے، آپ کو تیسرا نام پنجاب حکومت کی ویب سائیٹ پر بھی دکھائی نہیں دے گا، میاں شہباز شریف کی دوسری بڑی خامی پولیس ہے، میاں صاحب کو پولیس پر یقین نہیں اور پولیس کو میاں صاحب پر اعتماد نہیں، کیوں؟ اس کی وجہ ماڈل ٹائون کا سانحہ ہے، پورا ملک جانتا ہے 17 جون2014ء کو منہاج القرآن کے مرکز پر گولی چلانے کا حکم کس نے دیا لیکن جب 14 لوگ مارے گئے تو پنجاب حکومت نے ذمے داری کی گھنٹی پولیس کے گلے میں باندھ دی، پولیس افسر اور اہلکار نوکریوں سے بھی گئے، یہ سزائوں کے عمل سے بھی گزرے اور یہ بری طرح بدنام بھی ہوئے۔

یہ واقعہ پنجاب پولیس کے لیے خوفناک سبق تھا چنانچہ پولیس اب میاں شہباز شریف کے حکم پر کوئی آپریشن نہیں کرتی اور اگر کرنا پڑ جائے تو اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو 27 مارچ کو ممتاز قادری کے چہلم کے دن نکلا تھا، مظاہرین نے راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف رخ کیا تو کسی پولیس اہلکار نے انھیں نہیں روکا یہاں تک کہ وہ ریڈزون پہنچ گئے اور دوسری مثال چھوٹو گینگ ہے، وزیراعلیٰ کے حکم پر آٹھ اضلاع کی پولیس اکٹھی ہوئی، 28 مارچ کو کچا جمال پہنچی، اس کو دو ہزار جوانوں، بھاری اور جدید اسلحہ، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور سیٹلائیٹ کی سپورٹ حاصل تھی لیکن یہ دو ہزار جوان 80 ڈاکوئو کا مقابلہ نہ کر سکے۔

چھوٹو کی گرفتاری تو رہی ایک طرف ڈاکوئوں نے الٹا سات پولیس اہلکار شہید اور25یرغمال بنا لیے اور یہ وہ ایلیٹ جوان تھے جن پر پنجاب حکومت نے آٹھ برسوں میں اربوں روپے خرچ کیے تھے، کچا جمال میں 22 دنوں سے آپریشن چل رہا ہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور وہ پنجاب حکومت جو کل تک چالیس گز لمبے دعوے کرتے نہیں تھکتی تھی اور جس کا دعویٰ تھا ’’پنجاب میں دہشت گردوں کا کوئی’’ہائیڈ آئوٹ‘‘ اور جرائم پیشہ عناصر کی کوئی جنت نہیں اور پنجاب ملک کا واحد صوبہ ہے جسے فوج اور رینجرز کی ضرورت نہیں،، وہ حکومت ایک ڈاکو سے نبٹنے کے لیے فوج اور رینجرز کی مدد لینے پر مجبور ہوگئی۔

غلام رسول چھوٹو میاں شہباز شریف کے آٹھ سالہ مسلسل اقتدار کا پہلا ٹیسٹ تھا اور پنجاب حکومت اس پہلے ٹیسٹ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، اس ناکامی کا اعتراف آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا بھی کر چکے ہیں، میرا خیال ہے، میاں شہباز شریف کو بھی یہ ناکامی ماننی چاہیے، انھیں تسلیم کرنا چاہیے ان کے ’’آئیڈیل پولیس‘‘ کے تمام دعوے غلط تھے، پولیس کی ٹریننگ بھی جعلی تھی اور ’’پنجاب دہشت گردوں اور جرائم پیشہ سے پاک ہے‘‘ جیسے دعوے بھی جھوٹے تھے، میاں صاحب نے اچھے کمانڈر کی طرح سانحہ ماڈل ٹائون کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی لیکن انھیں ’’مرد‘‘ بن کر کچا جمال میں سات پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور 25یرغمالی اہلکاروں کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے تھی، انھیں اس قسم کی مردانگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس کی توقع یہ عمران خان سے رکھتے ہیں، میاں صاحب کو یہ بھی ماننا چاہیے، یہ آٹھ برسوں میں 10 کروڑ آبادی کے پنجاب سے ایک بھی ایسا شخص تلاش نہیں کر سکے جو وزیراعلیٰ پنجاب سے ہوم منسٹر کا قلم دان لے سکے، یہ جس کے حوالے پنجاب پولیس کر سکیں۔

یہ پانامہ لیکس پر مستعفی نہ ہوں،یہ بے شک اسے اپنے آزاد اور خود مختار بچوں کے کھاتے میں ڈال دیں لیکن یہ کچا جمال میں مرنے والے سات پولیس اہلکاروں کی ذمے داری تو قبول کریں، یہ ان 25 یرغمالی پولیس اہلکاروں کی ذمے داری تو لیں جو ان کی ضد، انا اور خوش فہمی کی بھینٹ چڑھ گئے اور آج جن کی مائیں، جن کی بہنیں اور جن کی بچیاں جھولیاں پھیلا کر بددعائیں دے رہی ہیں، آپ پنجاب کے خادم ہیں، آج آپ کو اپنی خدمت کی ناکامی تسلیم کرنی چاہیے، آپ کو ماننا چاہیے سات پولیس اہلکاروں کا خون آپ اور آپ کے محبوب آئی جی کی گردن پر ہے، آپ کو ماننا چاہیے، آپ عوام کو جان و مال کا تحفظ اور اپنی فورس کو اعتمادنہیں دے سکے اور آپ کو ماننا چاہیے، آپ ایک ناکام کپتان ہیں۔

اتوار، 7 فروری، 2016

ملک ریاض انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز: جاوید چوہدری

اتوار 7 فروری 2016

محمد ابراہیم خان آرمی پبلک اسکول پشاور کا طالب علم تھا، یہ دسویں جماعت میں پڑھتا تھا، اس کا دوسرا بھائی اسد بھی اے پی ایس کا طالب علم تھا، دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014ء کو اسکول پر حملہ کیا، محمد ابراہیم کا بھائی اسد بری طرح زخمی ہو گیا جب کہ محمد ابراہیم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا، ابراہیم کی ریڑھ کی ہڈی میں تین گولیاں لگیں، دہشت گرد اسے مردہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے، فوج نے آپریشن کیا، دہشت گرد مارے گئے، ریسکیو ورک شروع ہوا، پتہ چلا ابراہیم زندہ ہے۔

ابراہیم کو سی ایم ایچ لایا گیا، ابتدائی طبی امداد دی گئی، بچے کی جان بچ گئی لیکن چند دن بعد معلوم ہوا بچہ مفلوج ہو چکا ہے اور یہ زندگی میں اب کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا، ابراہیم کے والدین دو بچوں کے علاج کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے، ابراہیم کے بھائی اسد کا علاج ہو گیا، یہ تندرست بھی ہو گیا لیکن یہ نفسیاتی مریض بن گیا جب کہ ابراہیم کی زندگی بستر تک محدود ہو کر رہ گئی، ابراہیم کی ماں علاج کے لیے ماری ماری پھرنے لگی، یہ درخواست لے کر کبھی اس دروازے پر جاتی اور کبھی اس دروازے پر لیکن کوئی اس کی بات تک سننے کے لیے تیار نہیں تھا، اس دوران بچے کے جسم پر زخم ابھرنے لگے۔

اس کا بدن گلنا شروع ہو گیا، ابراہیم کی ماں دھکے کھاتی کھاتی ملک ریاض تک پہنچ گئی، ملک ریاض نے ابراہیم کے علاج کا بیڑا اٹھا لیا، علاج کے لیے معلومات اکٹھی کی گئیں، پتہ چلا ابراہیم کا علاج لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ممکن ہے، علاج کے لیے ابتدائی اخراجات ڈیڑھ کروڑ روپے تھے، ملک ریاض نے یہ رقم کلینک میں جمع کرائی، ابراہیم کی فیملی کو لندن میں کرائے پر مکان لے کر دیا اور بچے کا علاج شروع ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، ابراہیم اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا، یہ اب چلتا بھی ہے، بولتا بھی ہے اور اسکول بھی جاتا ہے۔

یہ کہانی اگر یہاں پر ختم ہو جاتی تو یہ چیریٹی کی ایک عام معمولی سی کہانی ہوتی، ملک میں ایسی سیکڑوں کہانیاں موجود ہیں، آپ اگر تلاش کریں گے تو آپ کو ایسے سیکڑوں ہزاروں مریض مل جائیں گے جن کا ہاتھ کسی نہ کسی مخیر شخص نے تھاما، اللہ نے کرم کیا اور وہ دوبارہ نارمل زندگی گزارنے لگے، ابراہیم کی کہانی بھی ان سیکڑوں کہانیوں جیسی ایک کہانی ہوتی اگر اس میں ایک ڈرامائی موڑ نہ آتا اور وہ ڈرامائی موڑ عیادت تھی، ملک ریاض نے محمد ابراہیم کی عیادت شروع کر دی، یہ لندن جاتے، ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ابراہیم سے ملتے، ڈاکٹروں سے ملاقات کرتے اور ابراہیم کی پراگریس رپورٹ دیکھتے، ملک ریاض کو ان وزٹس کے دوران معلوم ہوا ریڑھ کی ہڈی کے مسائل دنیا میں مشکل ترین اور مہنگے ترین طبی عارضے ہیں۔

یہ جس شخص کو لگتے ہیں اس کی زمین جائیداد بک جاتی ہے، ملک ریاض کو معلوم ہوا بیس کروڑ لوگوں کے ملک پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی اور سپائنل کارڈ کے ایشوز کا کوئی جدید اسپتال موجود نہیں، ملک میں جس شخص کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے معذوری اس شخص کا مقدر بن جاتی ہے، انھیں معلوم ہوا ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ایک آدھ سرجن کے بس کی بات نہیں ہوتا، اس کے لیے سرجنوں کی پوری ٹیم درکار ہوتی ہے اور پاکستان میں ٹیکنالوجی موجود ہے اور نہ ہی سرجن۔ ملک ریاض نے ہارلے اسٹریٹ کلینک کی انتظامیہ سے گفت و شنید شروع کی، انھیں پاکستان میں مکمل سہولتیں فراہم کرنے کا یقین دلایا اور انھیں پاکستان میں سپائنل سرجری کے لیے قائل کر لیا، لندن میں دو دن پہلے ہارلے اسٹریٹ کلینک اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان معاہدہ ہو گیا، معاہدے کے مطابق ہارلے اسٹریٹ کے 25 ڈاکٹر پاکستان آئیں گے۔

یہ ملک میں سپائنل سرجری کے یونٹ بنائیں گے، شروع میں یہ سہولت بحریہ گالف سٹی اسلام آباد، بحریہ انکلیو اسلام آباد اور بحریہ آرچرڈ لاہور میں دستیاب ہو گی، منصوبے پر شروع میں پانچ ارب روپے خرچ ہوں گے، یہ رقم بھی آہستہ آہستہ بڑھتی جائے گی اور یہ سہولت بھی ملک کے دوسرے حصوں تک پھیلتی جائے گی، یہ میڈیکل یونٹ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل ہو گا، وہ تمام مشینیں اور تھیٹرز تین ماہ میں پاکستان میں بنائے جائیں گے جو اس وقت ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ہیں اور جن کے لیے دنیا بھر سے سیکڑوں مریض کروڑوں ڈالر خرچ کر کے برطانیہ جاتے ہیں، یہ کلینک، یہ یونٹ جب بن جائیں گے تو آپ خود اندازہ کیجیے اس سے ابراہیم جیسے کتنے ایسے مریضوں کا بھلا ہو گا جو حادثوں کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کے عارضوں کا شکار ہوئے، پاؤں پر کھڑا ہونا بھول گئے اور معذوری ان کی زندگی کا حصہ بن گئی۔

یہ یونٹ اگر بن جاتے ہیں تو یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہوں گے جس کا ثواب ملک ریاض کے ساتھ ساتھ محمد ابراہیم کو بھی ملتا رہے گا کیونکہ اگر یہ بچہ زخمی نہ ہوتا، اگر یہ ملک ریاض تک نہ پہنچتا، اگر ملک ریاض اسے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں داخل نہ کراتے اور اگر یہ اس کی عیادت کے لیے نہ آتے تو شاید یہ منصوبہ کبھی شروع نہ ہوتا اور شاید کبھی ان مریضوں کی زندگی میں آس اور امید کا چراغ نہ جلتا جو اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہونے، چلنے، پھرنے، دوڑنے، بولنے اور ہاتھ ملانے کی امید تک کھو بیٹھے ہیں اور آپ اللہ کا کرم بھی ملاحظہ کیجیے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز اس شخص کو بخشا جسے لوگ مذاق میں ریاض ٹھیکیدار کہتے ہیں، جسے ملک کی ہر طاقتور شخصیت اور ہر طاقتور ادارے نے رگڑا لگانے اور ملک سے بھگانے کی پوری کوشش کی اور جو 25 سال سے لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھ رہا ہے ’’میرا جرم کیا ہے، میرا قصور کیا ہے، میں نے کیا غلط کیا ہے‘‘ اور جس نے ملک میں لیونگ اور کنسٹرکشن کا پورا تصور بدل دیا لیکن لوگ اس کے باوجود اس کے خلاف ہیں، مخالفت ضرور ہونی چاہیے مگر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے، وہ وجہ کہاں ہے؟۔

یہ کہانی اگر صرف یہاں تک محدود رہتی ہے تو بھی شاید کوئی کمال نہیں ہو گا، ہمارے ملک میں ایسے درجنوں منصوبے شروع ہوئے، واہ واہ بھی ہوئی لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ منصوبے ماضی میں جذب ہو گئے، ہم ملک میں ویلفیئر کا کوئی بھی ادارہ زیادہ سے زیادہ تیس سال چلا پاتے ہیں، یہ ادارہ بنانے والے کے انتقال کے چند سال بعد آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتا ہے اور جوں ہی ادارے کی دوسری نسل بوڑھی ہوتی ہے، ادارہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے، یہ یونٹ بھی اگر یہاں تک محدود رہتا ہے تو یہ بھی چند سال بعد اپنی افادیت کھو بیٹھے گا چنانچہ میری تین درخواستیں ہیں، ایک درخواست حکمرانوں سے ہے، دوسری ملک کے امراء سے اور تیسری ملک ریاض سے۔ حکمرانوں کو ملک ریاض کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔

میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں ہارلے اسٹریٹ کلینک کے مریض رہے ہیں، میاں نواز شریف نے یہاں سے دل کا آپریشن کرایا تھا جب کہ آصف علی زرداری یہاں سے کمر کے درد کا علاج کراتے ہیں، ملک کے دوسرے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور جرنیل حضرات بھی اس کے مریض رہے ہیں، یہ لوگ ملک ریاض جیسا ’’اینی شیٹو‘‘ کیوں نہیں لیتے؟ یہ لوگ دنیا کے تمام بڑے کلینکس کو پاکستان میں شاخیں کھولنے کی دعوت دیں، یہ انھیں سرکاری زمینیں دیں، بینکوں سے قرضے لے کر دیں اور صحت کے بجٹ سے امداد دیں، یہ کلینکس ملک میں اپنی شاخیں قائم کریں۔

حکومت بس انھیں پابند کرے، یہ تیس فیصد مریضوں کا مفت علاج کریں گے، حکومت ضرورت مند مریضوں کے تخمینے کے لیے ایک باڈی بنا دے، یہ باڈی جس مریض کا نام فائنل کرے ہارلے اسٹریٹ کلینک جیسے ادارے اس مریض کو مفت سروسز فراہم کریں، کیا یہ ممکن نہیں؟ دوسرا، ملک میں ملک ریاض کے پائے کے سو امراء موجود ہیں، یہ لوگ کھرب پتی ہیں، میں ایک ایسے کاروباری شخص کو جانتا ہوں جس کو بینک روزانہ دو کروڑ مارک اپ دیتے ہیں، یہ شخص اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے تو بھی اس کی دولت میں روزانہ دو کروڑ روپے کا اضافہ ہو جائے گا، یہ سو لوگ اس قسم کا کام کیوں نہیں کرتے؟ تعلیم اور صحت پاکستان کے دو بڑے مسئلے ہیں، یہ لوگ تعلیم کے اعلیٰ ادارے بنائیں۔

یونیورسٹیاں اور کالج بنائیں یا سرکاری اسکول ’’ٹیک اوور‘‘ کر لیں، یہ لوگ سرکاری اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز کی ذمے داری بھی اٹھا سکتے ہیں، حکومت مختلف اضلاع کے سرکاری اسپتال مختلف شخصیات کے حوالے کر دے، حکومت ان اسپتالوں کا بجٹ بھی ان لوگوں کو دے دے، یہ لوگ اس بجٹ میں ذاتی رقم ڈالیں اور اسپتالوں کی حالت بدل دیں، یہ لوگ جدید اسپتال بھی بنائیں، اس سے ملک میں تعلیم اور صحت دونوں مسئلے بھی حل ہو جائیں گے اور ان لوگوں کا ’’کنٹری بیوشن‘‘ بھی سامنے آ جائے گا، یہ لوگ اگر اپنی خدمات کے صلے میں ان اسپتالوں اور ان تعلیمی اداروں کو اپنے نام سے منسوب کرنا چاہیں تو حکومت انھیں یہ اجازت دیدے، اس سے ان لوگوں کی عزت افزائی بھی ہو گی اور ان کی فیملی کے لوگ بھی ان کے انتقال کے بعد ان اداروں کی ’’ٹیک کیئر‘‘ کرتے رہیں گے اور میری تیسری درخواست ملک ریاض سے ہے۔

ملک میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک اسپتال ہے، یہ اسپتال 1985ء میں پرنس کریم آغا خان نے بنوایا تھا اور یہ ان کی نسبت سے آغا خان اسپتال کہلاتا ہے، اس اسپتال کی بیک گراؤنڈ بہت دلچسپ ہے، 1982ء میں پرنس کریم آغا خان کی امامت کے 25 سال پورے ہوئے، دنیا بھر میں امامت کی سلور جوبلی منائی گئی، کراچی کی آغا خان کمیونٹی نے پرنس کریم آغا خان کے وزن کے برابر چاندی اور سونا صدقہ کیا، اس سونے اور چاندی کی مالیت 45 کروڑ ڈالر تھی، اس رقم سے کراچی میں 1985ء میں آغا خان اسپتال بنایا گیا، یہ اس وقت ملک کا جدید ترین اسپتال ہے، ملک ریاض کو بھی اللہ تعالیٰ نے وسائل، انرجی اور جذبہ عنایت کیا ہے۔

یہ اگر اپنی باقی زندگی ہیلتھ سیکٹر کو دے دیں، یہ ’’ملک ریاض انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز‘‘ کے نام سے ملک کا سب سے بڑا اور جدید اسپتال، ملک کا سب سے بڑا ہیلتھ کالج اور ملک کی سب سے بڑی لیبارٹری بنائیں، یہ ادویات سازی کا ایک ایسا ادارہ بھی قائم کریں جس میں مہلک امراض کے علاج دریافت کیے جائیں تو یہ ان کا بحریہ ٹاؤن سے بڑا کارنامہ ہو گا اور یہ کارنامہ ان کا نام ان کے بعد بھی زندہ رکھے گا، آغا خان اگر پیرس میں رہ کر اپنے کراچی کو ملک کا سب سے بڑا اسپتال دے سکتے ہیں تو ملک ریاض پاکستان میں رہ کر ہیلتھ سائنسز کا بڑا ادارہ کیوں نہیں بنا سکتے، میری ملک صاحب سے درخواست ہے، آپ ایک بار اس پر بھی ضرور سوچئے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس 

جمعہ، 29 جنوری، 2016

ترقی کو ڈنڈے مارنے والے لوگ: جاوید چوہدری کا 29 جنوری 16 کا کام

لڑکی پلیٹ فارم پر کھڑی تھی‘ پلیٹ فارم‘ ریل کی پٹڑی اور پورا ریلوے سٹیشن برف میں دفن تھا‘ درختوں کی ٹہنیوں تک نے برف کے دستانے پہن رکھے تھے‘ سامنے سے ٹرین آ رہی تھی‘ انجن کی ہیڈ لائیٹس روشن تھیں‘ ہیڈ لائیٹس کی روشنیاں منظر کو مزید خوبصورت بنا رہی تھیں‘ لڑکی کے گلے میں سرخ مفلر تھا‘ پشت پر تھیلا تھا اور ہاتھ میں ہینڈ بیگ‘ یہ خواب ناک منظر تصویر کی شکل میں جنوری کے پہلے ہفتے فیس بک پر ظاہر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ”وائرل“ ہو گیا‘ یہ تصویر دنیا کی تقریباً ہر اچھی اور بڑی ”وال“ تک پہنچی اور اس نے دل کھول کر ”لائیکس“ حاصل کئے۔

یہ جاپان کے گاﺅں ”کامی شراتاکی“کی ایک طالبہ کی تصویر تھی‘ یہ گاﺅں جاپان کے ”ہوکائیدو“ جزیرے میں واقع ہے‘ یہ بچی گاﺅں کی واحد طالبہ ہے‘ یہ روزانہ کلاسز لینے کےلئے شہر جاتی ہے‘ شہر گاﺅں سے 56 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ جاپانی حکومت نے 1932ءمیں کامی شراتاکی میں مال بردار گاڑیوں کےلئے ریلوے سٹیشن بنایا تھا‘ گاﺅں میں ریل کی پٹڑی اور ریلوے سٹیشن کی وجہ سے مسافر ٹرینوں کی آمدورفت بھی شروع ہو گئی لیکن جاپان میں 1987ءمیں ریلوے کی نج کاری ہو گئی اور یہ سٹیشن جے آر ہوکائیدو کمپنی کے پاس چلا گیا‘ کامی شراتاکی میں صرف 40 لوگ رہتے تھے‘ یہ لوگ بھی آہستہ آہستہ دوسرے قصبوں میں شفٹ ہو گئے یوں مسافر ٹرین کی سواریاں ختم ہو گئیں چنانچہ کمپنی نے 2012ءمیں یہ روٹ اور ریلوے سٹیشن بند کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن پھر کمپنی کو اچانک سٹیشن پر سولہ سال کی لڑکی کانا ہراڈہ نظر آئی‘ یہ کالج کی طالب علم ہے اور یہ تعلیم حاصل کرنے کےلئے روزانہ ٹرین کے ذریعے ہوکائیدو کے ہائی سکول جاتی ہے‘ جاپان ریلوے کو جب یہ معلوم ہوا‘ ہماری ٹرین اس طالبہ کا واحد سفری ذریعہ ہے اور ہم اگر یہ روٹ بند کر دیتے ہیں تو یہ طالبہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے گی تو ریلوے نے طالبہ کی تعلیم مکمل ہونے تک یہ روٹ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ سلسلہ پچھلے تین برس سے جاری ہے‘ 2012ءسے ایک ٹرین صبح اس لڑکی کو کالج لے جانے کےلئے ”کامی شراتاکی“ آتی ہے اور دوسری شام کے وقت اسے واپس چھوڑنے آتی ہے‘ یہ طالبہ ان دونوں ٹرینوں کی واحد مسافر ہے‘ جاپانی ریلوے اس طالبہ کی وجہ سے ماہانہ ہزاروں ڈالر نقصان اٹھا رہی ہے‘ طالبہ کے کالج کی تعلیم 26 مارچ 2016ءکو مکمل ہو گی‘ ریلوے اس کے بعد یہ سٹیشن اور یہ روٹ بند کر دے گا۔

کامی شراتاکی گاﺅں کی اس طالبہ کی کہانی پڑھنے کے بعد آپ کے دل میں کیا تاثر پیدا ہوتا ہے؟ آپ بھی یقینا میری طرح جاپان کی علم دوستی‘ تعلیم سے محبت‘ انسانی حقوق اور حساس دل کے معترف ہو چکے ہوں گے‘ آپ بھی میری طرح پکار اٹھے ہوں گے‘ یہ ہوتی ہیں حکومتیں‘ یہ ہوتا ہے نظام‘ یہ ہوتی ہیں ترجیحات اور یہ ہوتے ہیں ملک۔ آپ صرف ایک لڑکی کےلئے تین سال تک ٹرین چلاتے رہتے ہیں‘ آپ لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھا لیتے ہیں لیکن آپ کالج کی ایک طالبہ کی پڑھائی ڈسٹرب نہیں ہونے دیتے وغیرہ وغیرہ۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میں بھی اٹھارہ دنوں تک اسی پیٹرن‘ اسی ٹریک پر رواں دواں رہا‘ میں بھی انہی خیالات کا اظہار کرتا رہا لیکن میں نے کل جوں ہی لاہور سمن آباد موڑ کے لوگوں کو اورنج ٹرین کی تعمیراتی مشینری اور حد بندیوں پر ڈنڈے برساتے دیکھا‘ میں نے بپھرے ہوئے لوگوں کو ”اورنج ٹرین“ کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا‘ میرے خیالات بدل گئے اور میں نے اپنے آپ سے پوچھا ”فیس بک کی اس تصویر میں کون اہم ہے‘ لڑکی یا ٹرین؟“ جواب آیا ٹرین‘ آپ کو یقینا میرا جواب برا لگے گا لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے‘ آپ فرض کیجئے‘ جاپان اگر 83 سال قبل کامی شراتاکی میں ریلوے لائین نہ بچھاتا‘ یہ یہاں سے ریلوے لائین نہ گزارتا تو آج یہ طالبہ کالج نہ پہنچ پاتی‘ نوجوان خاتون کاناکی یہ کہانی صرف ریلوے لائین‘ ریلوے سٹیشن اور ٹرین کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہوئی‘ آج بھی دنیا میں ہزاروں لاکھوں ایسے گاﺅں موجود ہیں جہاں سے کوئی سڑک‘ کوئی ریلوے لائین اور کوئی بس نہیں گزرتی چنانچہ ان دیہات کے بچے کاناکی طرح سکول جانے کےلئے سڑک یا ریلوے سٹیشن پر کھڑے نہیں ہوتے‘ یہ درست ہے تعلیم اہم ترین ہے‘ تعلیم اور ہسپتال کے بغیر آج کے دور میں کسی معاشرے کو معاشرہ نہیں کہا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے‘ اگر سڑک نہیں ہو گی تو آپ اپنے مریض کو ہسپتال اور اپنے بچے کو سکول کیسے پہنچائیں گے؟ آپ تعلیم‘ صحت اور خوشحالی کا دنیا بھر کا ڈیٹا نکال کر دیکھئے‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ دنیا میں 1950ءتک اوسط عمر صرف 45 سال تھی‘ سرکاری ملازمین 50 سال کی عمر میں ریٹائر کر دیئے جاتے تھے‘ بھارت اور پاکستان میں آزادی کے بڑے عرصے بعد تک ملازمین کی ریٹائرمنٹ ”ایج“ 50 سال تھی‘ آپ تعلیم کا ڈیٹا بھی دیکھ لیجئے‘ آپ دیکھئے 1960ءتک کتنے فیصد بچے سکولوں میں داخل ہوتے تھے‘ ان میں سے کتنے فیصد سکول سے کالج پہنچتے تھے اور ان میں سے یونیورسٹی پہنچنے کی شرح کتنی تھی؟ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ پاکستان میں 1960ءکی دہائی تک سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں میں سے صرف دو فیصد طالب علم یونیورسٹی کا منہ دیکھ پاتے تھے‘ آپ اس کے بعد 1970ئ‘ 1980‘ 1990 اور 2000ءکی دہائی کا تجزیہ کیجئے‘ آپ یہ بھی دیکھئے‘ ملک میں 1980ءاور 1990ءکی دہائی میں کتنے لوگوں کے پاس ٹیلی ویژن‘ فریج‘ اے سی اور گاڑیاں تھیں‘ ملک میں 2000ءسے پہلے کتنے فیصد لوگوں کے پاس ذاتی مکان تھے‘ ریستورانوں میں کھانا کھانے والے لوگ کتنے تھے‘ ملک کے کتنے فیصد لوگ سال میں دوسرا جوتا‘ مہینے میں کپڑوں کا نیا سوٹ اور پرائیویٹ ڈاکٹر سے علاج افورڈ کر سکتے تھے‘ بینکوں میں اکاﺅنٹ کتنے لوگ کھولتے تھے‘ ہوائی سفر کتنے لوگ کرتے تھے اور بیرون ملک کتنے لوگ جاتے تھے‘ آپ چند منٹوں کےلئے اپنی زندگی کی ٹیپ بھی ”ری وائینڈ“ کیجئے‘ آپ اپنے بچپن میں چلے جائیں اور اپنے گاﺅں‘ اپنی گلی اور اپنے شہر کی مارکیٹیں اور دکانیں گنیے اور اس کے بعد آج شہر میں نکل کر دیکھئے‘ آپ آج شہر‘ گلی اور گاﺅں میں موجود دکانیں گنیے‘ آپ کو دونوں کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ آپ کے بچپن میں پورے محلے میں ایک آدھ دکان ہوتی تھی اور آج‘ اف توبہ‘ پورا محلہ مارکیٹ بن چکا ہے‘ آپ جدھر دیکھتے ہیں اور جہاں دیکھتے ہیں دکانیں ہی دکانیں ہیں اور گاہک ہی گاہک ہیں‘ آپ کسی بازار میں چلے جائیں‘ آپ کو گزرنے کا راستہ نہیں ملتا‘ آپ کا بچپن اگر کسی گاﺅں یا کسی پسماندہ قصبے میں گزرا ہو تو آپ کو یاد ہو گا‘ آپ لوگ شہر یا دوسرے محلے میں جانے کےلئے دو دن پہلے پلاننگ کرتے تھے‘ آپ آج بازاروں میں پھرتے لوگوں کو روک کر ان کا پتہ معلوم کیجئے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ یہ لوگ چالیس پچاس کلو میٹر دور سے آئے ہیں اور یہ عموماً روزانہ اتنا سفر کرتے ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی بتائیے‘ آپ کے بچپن میں کتنے لوگوں کو اخبار‘ خط اور کتابیں پڑھنی آتی تھیں اور کیا آج ان پڑھ لوگ بھی آپ کو ایس ایم ایس نہیں کر لیتے؟ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ یہ کیوں آئی؟ اس کی وجہ سڑک ہے‘ دنیا میں جہاں بھی سڑکیں بنتی ہیں‘ وہاں لوگوں کی اوسط عمر میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ صحت بھی بڑھتی ہے‘ تعلیم کا معیار بھی بلند ہوتا ہے اور خوش حالی بھی آتی ہے‘ آپ آج 2016ءمیں سڑک کے ذریعے شہروں سے منسلک گاﺅں کا تقابل ان دیہات سے کر لیجئے جن میں سڑک موجود نہیں‘ آپ ریلوے ٹریک اور جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ آباد شہروں کا تقابل ریلوے لائین اور بڑی شاہراہ سے دور آبادیوں سے بھی کر لیجئے‘ آپ کو سڑکوں سے منسلک اور ریلوے لائین اور جی ٹی روڈ کے ساتھ آباد شہروں میں خوش حالی‘ تعلیم‘ صحت اور معیار زندگی بہتر ملے گا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 26 جنوری کو اپنی رپورٹ جاری کی‘ اس رپورٹ میں ڈنمارک ترقی اور ایمانداری میں پہلے نمبر پر تھا اورصومالیہ بے ایمانی اور پسماندگی میں 168 ممالک میں پست ترین سطح پر۔ آپ کبھی ڈنمارک میں جا کر دیکھئے اور آپ پھر صومالیہ بھی جائیے‘ صومالیہ قدرتی وسائل میں ہزار درجے بہتر ہونے کے باوجود ایمانداری اور ترقی میں ڈنمارک سے 168 منزلیں پیچھے ہے‘ کیوں؟ کیونکہ صومالیہ کے لوگ پچھلے سو سال سے ترقی کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں جو کل سمن آباد موڑ کے عوام ڈنڈوں کے ذریعے اورنج ٹرین کی مشینری سے کر رہے تھے‘ پاکستان میں کوئٹہ پسماندہ اور لاہور اور کراچی ترقی یافتہ کیوں ہیں؟ کیونکہ کراچی اور لاہور کا انفرا سٹرکچر کوئٹہ سے بہتر ہے‘ آپ آج کوئٹہ میں میٹرو بس چلا دیں‘ پورے شہر کی سڑکیں کھلی کر دیں‘ فٹ پاتھ بنا دیں‘ ٹریفک ڈسپلن میں لے آئیں اور شہر میں اورنج ٹرین بنا دیں کل کراچی اور لاہور پسماندہ اور کوئٹہ ترقی یافتہ ہو جائے گا‘ کل لاہور اور کراچی کے لوگ تعلیم‘ صحت اور خوشحالی میں کوئٹہ کے عوام سے پیچھے چلے جائیں گے‘ یہ میٹرو اور ٹرینیں اتنی اہم ہیں کہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور ایران جیسے وہ ملک جن میں پانی مہنگا اور پٹرول سستا ہے وہ بھی میٹرو بسیں اور میٹرو ٹرینیں چلا رہے ہیں‘ تہران شہر میں میٹرو ٹرین بھی ہے اور جنگلہ بس جیسی میٹرو بس بھی‘ ریاض شہر میں میٹرو کےلئے کھدائی ہو چکی ہے‘ مکہ اور مدینہ کے درمیان ٹرین چل چکی ہے جبکہ دوبئی نے ستمبر 2009ءمیں میٹرو ٹرین بنا لی تھی‘ کیوں؟ آپ امریکا سے لے کر چین تک اور منگولیا سے لے کر سپین تک دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں اور شہروں میں جھانک کر دیکھ لیں‘ آپ کو ترقی یافتہ ممالک کے ہر اس شہر میں یہ ”برائی“ نظر آئے گی جس کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ترقی کی نشانیاں ہیں‘ یہ درست ہے‘ ہمیں بچت کرنی چاہیے‘ ہمیں اورنج ٹرین کا بجٹ کم کرنا چاہیے‘ آثار قدیمہ بھی بچانے چاہئیں اور حکومت اگر لوگوں کی ذاتی پراپرٹی لے رہی ہے تو اسے اس کا باقاعدہ معاوضہ ادا کرنا چاہیے لیکن خدا را آپ ترقی کو ڈنڈے مارنا بند کریں‘ یہ منصوبے عام اور غریب لوگوں کےلئے سواری کا اچھا‘ باعزت اور سستا ذریعہ ہیں‘ آپ ان سے یہ ذریعہ نہ چھینیں‘ یہ منصوبے کل کو آپ کے بچوں کا معیار زندگی بدل دیں گے‘ آپ اپنے بچوں سے زندگی کا یہ معیار نہ چھینیں‘ میری بلوچستان‘ سندھ اور کے پی کے حکومتوں سے بھی درخواست ہے‘ آپ ضد ترک کر دیں‘ آپ بھی کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ میں ایسی ہی میٹرو بسیں اور میٹرو ٹرینیں بنائیں ورنہ وہ وقت دور نہیں جب آپ کے لوگ لاہور پہنچ کر آپ کو بددعائیں دیںگے‘ سیاسی اور ذاتی مخالفتیں اپنی جگہ لیکن جہاں تک ترقی کا معاملہ ہے ہمیں اس کےلئے اپنا دل بڑا کرنا پڑے گا ورنہ دس سال بعد ہم ہوں گے اور وقت کے ٹھڈے اور ڈنڈے اور ہماری کانا جیسی بچیاں سکول جانے کےلئے دہلیز پر کھڑی ہوں گی اور ہمارے پاس ان کےلئے ٹرین تو دور کھوتی ریڑھی بھی نہیں ہو گی‘ آپ کے والدین نے سڑکیں بننے دیں‘ آپ ان کے مقابلے میں بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘ آپ آج میٹرو اور اورنج ٹرینیں بننے دیں کل آپ کے بچے آپ سے بہتر زندگی گزاریں گے‘ یہ میرا نہیں‘ تاریخ کا دعویٰ ہے۔

جمعرات، 14 جنوری، 2016

کراچی میں یہودی قبرستان ! ۔ بائی جاوید چوہدری

کراچی میں یہودی قبرستان !



جمعرات، 4 جون، 2015

کاٹتے پہلے ہیں، گنتے بعد میں ہیں: جاوید چوہدری کا کالم

آپ نے اردو پوائنٹ کا نام یقیناً سنا ہوگا یہ پاکسان کی پرانی اور بڑی نیوز ویب سائیٹ ہے، یہ سائیٹ لاہور کے نوجوان علی چوہدری نے پندرہ سال قبل بنائی ، علی اس زمانے مین دن کے وقت نوکری کرتے تھے اور شام کو ویب سائیٹ چلاتے تھے۔۔۔۔علی ملک کے سب سے بڑے ویب سائیٹ انٹرپرینیور بن گئے اور یہ ملک کے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے جو یر سال یونیو رسٹی سے نکلتے ہیں اور پنا کام کرنا چاہتے ہیں۔۔ میں علی چوہدری کا فین ہوں۔۔۔۔



بدھ، 20 مئی، 2015

ہم گدھے کھا رہے ہیں: جاوید چوہدری

ہم گدھے کھا رہے ہیں: جاوید چوہدری  منگل 19 مئ 2015

آپ اگر کسی قصاب کی دکان سے قیمہ خرید رہے ہیں یا آپ نے کسی ریستوران میں کڑاہی گوشت کا آرڈر دے دیا یا آپ باربی کیو سے لطف اندوز ہورہے ہیں یا پھر آپ چپلی کباب کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو آپ فوراً اپنا ارادہ بدل لیں، آپ قیمہ خریدنے کے فیصلے سے بھی منحرف ہو جائیں اور اگر ممکن ہو تو آپ چند ماہ کے لیے گوشت کی خریداری سے بھی تائب ہوجائیں، آپ کی صحت اور ایمان دونوں کے لیے بہتر ہو گا، یہ فیصلہ صرف آپ اور مجھے نہیں کرنا چاہیے بلکہ ملک کے تمام پارلیمنٹیرینز، تمام بیورو کریٹس، تمام فوجی افسروں، تمام وزراء، تمام وزراء اعلیٰ، گورنر صاحبان، وزیراعظم اور صدر صاحب کو بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی یقینا ان گوشت فروشوں کا نشانہ ہیں جو اس وقت معمولی سے مالی فائدے کے لیے عوام اور خواص دونوں کو گدھے کا گوشت کھلا رہے ہیں اور ہم عوام سمیت ملک بھر کے خواص 2013 سے اس حرام خوری کے مرتکب ہیں۔



یہ معاملہ کیا ہے؟ ہمیں یہ جاننے کے لیے ذرا سا ماضی میں جانا ہو گا، ہمارے ملک میں چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات تیسری بڑی ایکسپورٹ ہے، پاکستان نے 2014میں 957 ملین ڈالر کی چمڑے کی مصنوعات ایکسپورٹ کیں، ملک میں چمڑا صاف کرنے والی آٹھ سو بڑی ٹینریز ہیں جب کہ پانچ لاکھ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں،پاکستان میں نیوزی لینڈ کے بعد دنیا کی شاندار ترین کھالیں پیدا ہوتی ہیں، پاکستان کی 2010 تک اس شعبے میں مناپلی تھی لیکن پھر چین اس شعبے میں آگیا، اس نے دنیا بھر سے کھالیں جمع کرنا شروع کر دیں، چین نے پاکستان کی چمڑے کی صنعت پر بھی دستک دی، چینی کارخانہ دار پاکستان سے بھاری مقدار میں کھالیں خریدنے لگے، چینی تاجر پاکستان آئے تو انھوں نے دیکھا ملک میں بکرے، گائے اور بھینس کا چمڑا مہنگا جب کہ گدھوں اور خچروں کی کھالیں سستی ہیں۔

تحقیق کی، پتہ چلا، پاکستان مسلمان ملک ہے، مسلمان گدھوں اور خچروں کا گوشت نہیں کھاتے،پاکستان میں جب گدھے اور خچر بیمار ہوتے ہیں تو انھیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ ویرانوں میں سسک سسک کر مر جاتے ہیں، گدھوں کے مرنے کے بعد شہروں کے انتہائی غریب لوگ ان کی کھال اتار لیتے ہیں اور گوشت چیلوں اور مردار خور جانوروں کے لیے چھوڑ دیا جاتاہے، یہ کھال بازار میں آٹھ سو سے بارہ سو روپے میں فروخت ہوتی تھی، یہ چینی تاجروں کے لیے بڑی خبر تھی کیونکہ گدھے اور خچر کی کھال گائے اور بھینس کی کھال سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہے، آپ اس کھال کو معمولی سا ’’فنش‘‘ کر کے گھوڑے کی کھال بنا لیتے ہیں اور گھوڑے کی کھال کا صوفہ 5 ہزار ڈالر سے شروع ہوتا ہے، چینی تاجروں نے ٹیکس اور ڈیوٹی دیکھی تو یہ بھی گائے کی کھال سے بہت کم تھی،گدھے کی پوری کھال پر صرف 8 ڈالر کسٹم ڈیوٹی اور 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال پر مربع فٹ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چنانچہ چینی تاجروں نے پاکستان سے گدھوں اور خچروں کی کھالیں خریدنا شروع کر دیں۔

کھالوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی تو قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا، ملک میں اس وقت گدھے کی وہ کھال جو 2013 تک صرف آٹھ سو روپے میں ملتی تھی اس کی قیمت آج بارہ ہزار سے 20 ہزار روپے ہے جب کہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار اور بھینس کی کھال چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار روپے میں دستیاب ہے، پاکستان میں دو سمندری پورٹس اور 13 ڈرائی پورٹس ہیں، آپ پچھلے دو سال میں ان 15 پورٹس سے گدھوں اور خچروں کی کھالوں کی ایکسپورٹس کا ڈیٹا نکلوا کر دیکھ لیں، آپ کے 14 طبق روشن ہو جائیں گے، میں صرف کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کا ڈیٹا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں،



کراچی پورٹ سے جنوری 2013سے اپریل 2015 تک گدھوں کی 96 ہزار 8 سو 13 کھالیں جب کہ پورٹ قاسم سے 89 ہزار کھالیں ایکسپورٹ ہوئیں، یہ کل ایک لاکھ 85 ہزار 8 سو 13 گدھے بنتے ہیں، آپ باقی 13ڈرائی پورٹس سے بک ہونے والی کھالوں کی تعداد صرف ایک لاکھ 15 ہزار لگا لیجیے تو یہ تین لاکھ بن جائیں گے گویا پاکستان میں دو برسوں میں تین لاکھ گدھے انتقال فرما گئے۔

یہ تعداد انتہائی الارمنگ ہے کیونکہ 2013 سے قبل ملک سے گدھوں کی سالانہ صرف چار ہزار کھالیں برآمد ہوتی تھیں، اب سوال یہ ہے گدھوں کی کھالوں میں اچانک 30 گنا اضافہ کیسے ہو گیا؟ جواب بہت واضح اور سیدھا ہے، سندھ میں چالیس سے پچاس ہزار روپے میں صحت مند گدھا مل جاتا ہے، پنجاب میں اس کی قیمت 25 سے 30 ہزار روپے ہے، قصاب گدھا خریدتے ہیں، اس کا گلا کاٹتے ہیں، اس کی کھال اتارتے ہیں، یہ کھال 12 سے 20 ہزار روپے میں فروخت ہو جاتی ہے، گدھے کا وزن 150 سے 200 کلو گرام تک ہوتا ہے، کھال کے بغیر گدھے کا وزن 135 کلو رہ جاتا ہے، یہ لوگ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتے ہیں اور یہ گوشت 300 روپے کلو کے حساب سے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے،یہ گوشت چالیس سے پچاس ہزار روپے میں فروخت ہو جاتا ہے، یوں ان لوگوں کو ہر گدھے سے دس ہزار سے 20 ہزار روپے بچ جاتے ہیں۔ یہ گوشت کہاں جاتا ہے؟

اس گوشت کا 80 فیصد حصہ ان سرکاری محکموں کے ’’میس‘‘ میں چلا جاتا ہے جو ’’بلک‘‘ میں گوشت خریدتے ہیں یا وہ بڑے ہوٹل، بڑے ریستوران اور گوشت کی وہ بڑی چینز جو روزانہ سیکڑوں من گوشت خریدتی ہیں، یہ گوشت انھیں سپلائی ہو جاتا ہے،باقی بیس فیصد گوشت مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے، گدھا اگر کٹا ہوا ہو، اس کی کھال اتری ہوئی ہو اور یہ قصاب کی دکان پر الٹا لٹکا ہو تو آپ خواہ کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں آپ گدھے کو پہچان نہیں سکیں گے ، آپ کو وہ گدھا قصاب کی دکان پر بکرا، گائے کا بچھڑا یا پھر بھینس کا بچہ ہی محسوس ہو گا، کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے چند کاریگر قصاب مزید فنکاری کرتے ہوئے گدھے کی ننگی گردن کے ساتھ بچھڑے کی سری لٹکا دیتے ہیں، یوں مرحوم گدھا دیکھنے والوں کو گدھا محسوس نہیں ہوتا، یہ بچھڑا لگتا ہے۔یہ معلومات کس حد تک درست ہیں، ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں، مجھے ابتدائی معلومات اس مکروہ دھندے سے وابستہ ایک شخص نے دیں، یہ شخص توبہ تائب ہوگیا، اس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور مجھ سے رابطہ کیا۔

اس کا دعویٰ تھا ملک کے تمام مقتدر عہدیدار اس وقت تک گدھے کا گوشت کھا چکے ہیں کیونکہ مکروہ کاروبار سے وابستہ لوگ جان بوجھ کر ان ایوانوں میں گوشت پہنچا رہے ہیں جو ملکی پالیسیاں بناتے ہیں، اس صاحب کا دعویٰ تھا یہ لوگ اس سلوک کے حق دار ہیں کیونکہ ملک میں اچانک گدھوں کی کھال کی ڈیمانڈ بڑھ گئی، ملک سے گدھے کم ہونے لگے اور گوشت کی قیمتوں میں کمی ہوگئی لیکن یہ لوگ خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے، ان میں سے کسی نے کسی سے نہ پوچھا ’’گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اور اس اضافے کے عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟‘‘چنانچہ یہ لوگ دو برسوں سے اس بے حسی کا نقصان اٹھا رہے ہیں، یہ جانتے ہی نہیں ان کی ڈائننگ ٹیبل اور ان کے کچن میں کیا ہو رہا ہے اور انھیں گوشت سپلائی کرنے والے ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔

یہ سطریں اگر وزیراعظم، صدر مملکت، وزیرخزانہ، سیکریٹری خزانہ، وزیر داخلہ، وزراء اعلیٰ اور ایف بی آر کے حکام تک پہنچ جائیں تو میری ان سے درخواست ہے، آپ فوری طور پر گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ کا ڈیٹا منگوائیں، اس ڈیٹا کا تجزیہ کریں اور اس کے بعد گدھوں کی کھال کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دیں، آپ اس کے بعد حرام جانوروں کی کھالوں کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں، میری عام شہریوں سے بھی درخواست ہے آپ گوشت خود خریدا کریں، آپ قصاب کی دکان پر خود جائیں اور اپنی نظروں کے سامنے گوشت کٹوائیں، میرے چند دوستوں نے گوشت کے سلسلے میں باقاعدہ ’’مافیا‘‘ بھی بنا رکھا ہے، یہ چار لوگ مل کر بکرا خریدتے ہیں، اسے اپنے سامنے ذبح کراتے ہیں، گوشت بنواتے ہیں اور گوشت کے چار حصے کر لیتے ہیں، یہ پانچ دس لوگ مل کر گائے بھی خرید لیتے ہیں، یہ اس کا گوشت بھی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، یہ لوگ قیمہ گھر پر اپنی مشین پر بناتے ہیں، یہ بھی اچھا فارمولا ہے کیونکہ صحت اور ایمان انسان کے قیمتی ترین اثاثے ہوتے ہیں، انسانوں کو ان اثاثوں کی حفاظت کرنی چاہیے، میری وزیراعظم اور وزیرخزانہ سے درخواست ہے آپ ایک لمحے کے لیے اپنے سالن کے ڈونگے میں جھانک لیں، مجھے یقین ہے آپ گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اشاعت بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں