اردو کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 31 اکتوبر، 2016

سراج الحق اور عمران خان کی منزل ایک راستے فرق ہیں


بشکریہ روزنامہ پاکستان اشاعت 31 اکتوبر

امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک مکمل جمہوری جماعت کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کسی قانون وراثت یا کسی بیک چینل ڈپلومیسی سے جماعت اسلامی کی سربراہی حاصل نہیں کی ہے۔ بلکہ انہوں نے ووٹ کی طاقت سے سربراہی حا صل کی ہے۔ اس لئے انہیں ووٹ کی طاقت اور جمہوریت کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کا انداذہ ہے۔ شاید اسی لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری دنگل سے پورے ملک کے عوام پریشان ہیں اس کے حل کی چابی سپریم کورٹ کے پاس ہے ۔پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کو کسی نظریہ ضرورت کی ضرورت نہیں،سپریم کورٹ جرأت سے فیصلہ کرے ،قوم عدلیہ کے ساتھ ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکمران عوام کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں ،کبھی ایک مظلوم اور دوسرا ظالم اور پھر پہلا ظالم اور دوسرا مظلوم بن جاتا ہے اور مصنوعی لڑائی لڑکر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک ہی لٹیرا کلب کے ممبر ز ہیں ۔

سراج الحق نے سپریم کورٹ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کے حوالہ سے درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ لیکن وہ سپریم کورٹ پر چڑھائی نہیں کر رہے۔ وہ اسلام آباد پر چڑھائی نہیں کر رہے۔ وہ کرپشن کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے شہر شہر جا رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت کو کسی احتجاج کے نتیجے میں ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ سراج الحق اداروں کی کارکردگی سے خوش بھی نہیں ہیں لیکن وہ اداروں کو پامال کرنے کی مہم جوئی بھی نہیں کر رہے ہیں۔

ایک تاثر یہ ہے کہ سراج الحق میدان میں ہیں بھی اور میدان میں نہیں بھی ہیں۔ وہ موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نکالنا بھی چاہتے ہیں لیکن نکالنے کے لئے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کو بھی تیار نہیں۔ وہ سپریم کورٹ میں پا نامہ کے حوالہ سے درخواست بھی دائر کر رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ کو برا بھلا بھی نہیں کہہ رہے۔ بلکہ سب کو کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح جو لوگ حکومت اور میاں نواز شریف کو رات سے پہلے گھر بھیجنے کے خواہاں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ سراج الحق سامنے آبھی نہیں رہے اور صاف چھپ بھی نہیں رہے ۔

لیکن میں سمجھ رہا ہوں کہ سراج الحق ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد کی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنے کی جدو جہد بھی کر رہے ہیں لیکن انہیں خود اقتدار میں آنے کی جلدی نہیں ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں لیکن نظام جمہوریت کو بھی بچا رہے ہیں۔

سراج الحق کی فوج کے حوالہ سے پالیسی بھی واضح ہے وہ کہتے ہیں ۔فوج کو اپنے مقاصد کیلئے سیاست میں گھسیٹنے والے ملک و قوم سے مخلص ہیں نہ فوج سے ۔پاکستان اور فوج دونوں ضروری ہیں ،اس ادارے کو سرحدوں کی حفاظت سے ہٹا کر کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال کرنے کی قوم اجازت نہیں دے گی۔میں حیران ہوں کہ سراج الحق کو سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی فوج کے حوالہ سے یہ پالیسی نہ فوج کو پسند ہے اور نہ ہی ان کو پسند ہے کہ جو فوج کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنا چاہتے ہیں۔ سراج الحق بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھو۔ لیکن ان کی کوئی نہیں سن رہا۔ نہ حکومت ان کی سن رہی ہے۔ اور نہ ہی وہ جو حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے ہر حد سے گزر جانے کے لئے بے تاب ہیں۔

سراج الحق کا دعویٰ ہے کہ ملک کو دیانتدار قیادت صرف جماعت اسلامی دے سکتی ہے ۔اگر میں ملک سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے نکلا ہوں تو میرے دائیں بائیں کوئی آف شور کمپنی کا مالک ،شوگر مافیا کا ڈان ،قرضے ہڑپ کرنے والا یا سمگلر نہیں قوم سے اپنی امانت ودیانت کا لوہا منوانے والے کھڑے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مغرب اور امریکہ کے ذہنی غلام مسجد و محراب اور قرآن و سنت کے احکامات کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جبکہ ملک کے اسی فیصد عوام ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔

سراج الحق اور عمران خان ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ لیکن ان کے لہجے اور انداز میں فرق ہے۔ دونوں کی سیاست کا محور کرپشن ہے۔ دونوں پانامہ میں میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ لیکن فرق صاف ظاہر ہے۔ایک ہوش قائم رکھنے کی بات کر رہا ہے۔ دوسرا جوش میں سب کچھ تباہ کرنے کا پیغام دے رہا ہے۔ لیکن شاید ہمارے ملک میں سلطان راہی سٹائل پسند کیا جا تا ہے۔ لوگ ایسے ہیرو کو پسند کرتے ہیں جو سب کچھ نیست و نابود کر دے۔

میں کنفیوژ ہوں کہ سراج الحق سپریم کورٹ پر یقین رکھنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان سپریم کورٹ سے بالا بالا ہی گیم کو ختم کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ سراج الحق گیم کو پانامہ تک محدود رکھنے کی بات کر رہے ہیں عمران خان اسی میں سکیورٹی مسائل کو بھی ڈال رہے ہیں۔ وہ فوج کو اپنے ساتھ نتھی کر رہے ہیں۔ سراج الحق فوج سے فاصلہ برقرار رکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ فرق شاید ابھی سیاسی شعور کے لئے مشکل ہے۔ عوام کو یہ فرق سمجھ نہیں آرہا۔ لیکن سراج الحق کا راستہ مشکل تو ہے لیکن صحیح راستہ یہی ہے۔ اور انہیں فخر ہونا چاہئے کہ وہ صحیح راستہ پر چل رہے ہیں۔

پیر، 18 جولائی، 2016

شرم و حیا سے فحاشی و عریانی تک (آخری قسط) اوریا مقبول جان

صابن اور سگریٹ کے یہ اشتہار جن میں عریانیت محض نام کو تھی لیکن چونکہ مغربی معاشرہ اس کا بالکل عادی نہ تھا‘ اس لیے شروع شروع میں انھیں حیرت اور لطف دونوں کے ملے جلے جذبات سے دیکھا گیا چونکہ یہ دونوں اشتہار اس چیز یعنی ’’پراڈکٹ‘‘ پر چسپاں تھے جیسے صابن جس کاغذ میں لپٹا ہوا تھا اس پر یہ تصویر نمایاں تھی اور سگریٹ کی ڈبیا میں وہ کارڈ رکھے ہوئے تھے، اس لیے یہ دونوں اشتہار گھروں کی معمولات کا حصہ بن گئے اور ساتھ ساتھ وہ تصویریں بھی کاروباری زبان میں ’’ہاؤس ہولڈ آئٹم‘‘ بن گئیں۔

یوں ایک زمانے میں جس طرح کی تصویروں کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی تھیں۔ لیکن اب صابن کا کور اتارتے یا سگریٹ کا پیکٹ کھولتے کوئی ان پر نظر بھی نہ ڈالتا تھا۔ عریانی کے بارے میں جب یہ پہلا بندھن توڑا گیا تو وہ لوگ جو اپنا مال بیچنے کے لیے عورت کو ایک ’’پراڈکٹ‘‘ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے انھیں مکمل یقین ہو گیا کہ حساسیت کو آہستہ آہستہ ختم کرتے ہوئے ہم معاشرے کو اس نہج پر لے آئیں گے کہ اگر جسم پر چند چیتھڑے ہی موجود ہوں تو اسے لوگ عریانی تصور نہیں کریں گے بلکہ اس کی ابتدائی شکل ہی مکمل ننگا پن ہو گا۔

یہی وہ دور تھا جب اٹلی کی ایک مشہور کپڑے بنانے والی کمپنی نے 1905ء کے آس پاس بہت شہرت حاصل کی۔ اس کا آرٹ ڈائریکٹر آلیورو ٹوسکانی Oleviero Toscani نے دنیا بھر کی ماڈلز کو پہلے اپنے ملبوسات پہنا کر اشتہارات تیار کیے جس کی وجہ سے اس کی مصنوعات کو عالمی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ ان کے جسموں سے لباس سرکانا شروع کیے۔ چونکہ ماڈلز ہر رنگ، نسل اور علاقے سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے ہر علاقے کے لوگوں کی اپنی پسند و ناپسند کے معیارات تھے، یہی وجہ ہے کہ اس کمپنی کی مصنوعات کے بہانے وہ اپنی منظور نظر خواتین کے جسموں کی نمائش دیکھتے تھے اور کمپنی کا مال بکتا تھا۔ خواتین کے جسم کو مال فروخت کرنے کے لیے استعمال کی عالمی سطح پر یہ پہلی منظم کوشش تھی۔

جب اس طرح عریانی سے مال بکنے لگا اور آہستہ آہستہ لوگ بھی اس عریانی کے عادی ہوتے چلے گئے تو پھر انھیں نہ سینے سے سرکتے ہوئے ملبوس برے لگے اور نہ ہی برہنہ ٹانگیں، بلکہ لباس کی تراش خراش ایسی رکھی جاتی کہ دیکھنے والے کا تجسس مزید بڑھ جاتا‘ اس کے بعد اس کو ایک مکمل سائنس کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ ایک علم بن گیا جسے آج مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کہتے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھایا جانے لگا۔ لاکھوں لوگوں کا کاروبار اس سے وابستہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں پینتالیس ہزار کارپوریشنیں ہیں۔

یہ مختلف قسم کی مصنوعات بناتی ہیں۔ سیمنٹ، سریا، ٹائر، کار، ٹیلی ویژن، ٹوتھ پیسٹ، شیو کا سامان وغیرہ، یعنی ضروریات زندگی کی ہر چیز۔ ان تمام مصنوعات کو بیچنے کے لیے اشتہار ساز کمپنیوں کی الگ ایک دنیا ہے۔ یہ کمپنیاں لوگوں کے مزاج کے مطابق اشتہار بناتی ہیں۔ لیکن ان کمپنیوں نے ایک غیر محسوس طریقے سے لوگوں کو اس بات کا عادی کر دیا کہ چیز کوئی بھی بیچنی ہو، عورت کو بازار میں لا کر ضرور کھڑا کیا جائے۔ ایک بہت مشہور ٹائر کی کمپنی کا اشتہار 1950ء کے آس پاس شایع ہوا، جس میں دور تک جاتی کول تار کی چمکدار سڑک پر ٹائر درمیان میں کھڑا ہے اور اس پر ہاتھ رکھے مارلن منرو، ایک ڈھیلا سا فراک پہنے ہوئے چوکڑی مارکر بیٹھی ہے۔ مال بیچنے کے لیے عورت کا استعمال، انسانی ذلت اور ذہنی پستی کی اس سے بری اور کیا علامت ہو سکتی ہے۔ یہ علم ایک سائنس بنا تو اس بات پر تحقیقات کا دروازہ کھل گیا کہ معاشرے میں کس حد تک عریانیت دکھائی جائے تو قابل قبول ہو گی اور پھر آہستہ آہستہ ’’خوراک‘‘ میں اضافہ کر دیا جاتا‘ جیسے نشے کی خوراک میں کیا جاتا ہے۔

مارکیٹنگ کی تعلیم میں ایک تحقیق کے بہت حوالے دیے جاتے ہیں۔ یہ تحقیق گیلپ اینڈ روبنسن Gallup & Robinson نے گزشتہ پچاس سال کے اشتہاری ماضی پر کی تھی۔ ان کے نزدیک سب سے کامیاب اشتہار وہ رہے جن میں عورت کے جسم کو نمایاں کیا گیا۔ جس کے لیے انھوں نے مشہور لفظ EROTIC استعمال کیا۔ جس کا مطلب تصویر کا ایسا استعمال ہے جس سے جنسی طلب میں اضافہ ہو۔ لیکن انھوں نے اشتہارات بنانے والوں کو متنبہ بھی کیا کہ جہاں کہیں کسی معاشرے میں اپنی حدود سے آگے نکلو گے تو اس کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ لوگوں کے جذبات بھی بھڑک سکتے ہیں۔ کبھی بھی لوگوں کی حساسیت کے مخالف اشتہارات میں عریانیت کی زیادتی (Over Dose) نہ کرنا، البتہ ایک بات اس تحقیق اور اس سے متعلقہ ہزاروں تحقیقوں نے بتائی کہ ’’جنسیت بکتی ہے‘‘ یہیں سے ”Sex Sells” کا نعرہ مستانہ گونجا۔

اب کیسے بیچنا ہے، کس طرح بیچنا ہے، کیسے لوگوں کو اس کا عادی کرنا ہے، یہ سب اس قدر، منظم اور شاندار طریقے سے کیا گیا کہ اب ایسے معاشرے وجود میں آ گئے کہ جہاں مکمل عریانیت پر بھی لوگوں کو حیرانی نہیں ہوتی۔ دنیا کے ہر ’’تہذیب یافتہ‘‘ ملک میں سمندر کے ایسے ساحل موجود ہیں جنھیں ’’بے لباس ساحل‘‘ (Nude Beaches) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک دن میں وجود میں نہیں آ گئے۔ ان کے پیچھے تقریباً ایک صدی کی محنت ہے۔ ان کے پیچھے صرف اشتہارات کی دنیا نہیں بلکہ پوری فیشن انڈسٹری ہے جو عورت کو زینت بازار بنانے اور پرکشش بنا کر پیش کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ فلم اور ٹیلی ویژن کا ایک وسیع دائرہ ہے جو لوگوں میں طرز زندگی اور لائف اسٹائل کو متعارف کرواتا ہے۔ پہلے ہیرو اور ہیروئن زبردست کہانی اور اداکاری کے حوالے سے دلوں کی دھڑکن بنتے ہیں اور پھر ان کا طرز زندگی لوگوں کے لیے آئیڈیل ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی ایک منظم طریقے سے آہستہ آہستہ جنسیت کو متعارف کروایا گیا۔

فلموں میں یہ پابندی نہیں تھی کہ تم کیسی فلم بناؤ گے۔ تمہیں ہر طرح کی آزادی ہے لیکن ہم ہر فلم کو Rate کریں گے یعنی ہم بتائیں گے کہ کس عمر کے لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ اس ریٹنگ کو PG ریٹنگ کہا جاتا ہے یعنی ”Parent Guidence” یعنی والدین کی ہدایت کے لیے کہ وہ بچوں کو اور کس عمر کے بچوں کو اس سے دور رکھیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جو فلمیں PG18 یعنی اٹھارہ سال سے زیادہ کی عمر کے بچوں کے دیکھنے کے لیے تھیں، اب وہ PG13 یعنی تیرہ سال کی عمر والوں کو دیکھنے کے لیے میسر ہیں۔ ان میں مناظر ہوتے ہیں۔

اندازہ کیجیے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں جب ایک معمولی سا بوسہ بھی لوگوں میں ناراضی کے جذبات پیدا کر دیتا تھا اب PG18 میں وہ فلمیں شامل ہو چکی ہیں جن میں سیکس دکھائے جاتے ہیں۔ ان فلموں کے علاوہ نوے ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی انڈسٹری ہے جسے فحش فلموں کا کاروبار کہتے ہیں۔ وہاں کی حساسیت دیکھیے کہ 1904ء میں پہلی فحش فلم بیونس آئرس میں بنائی گئی۔ یعنی ابھی ایڈیسن کو موشن پیکچر ایجاد کیے صرف چودہ سال ہوئے تھے۔ یہ فلم ایک نیم فحش بلکہ آج کے دور کے مطابق نارمل فحش بھی نہ تھی۔ لیکن 1915ء میں جب دوسری فلم آئی تو دیکھنے والوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ سینما گھروں پر پابندی تھی کہ یہاں صرف مرد یہاں آ سکتے ہیں۔

آپ حیران ہوں گے آج بھی دنیا بھر میں جہاں جہاں فحش فلموں کے سینما گھر ہیں وہاں دیکھنے والوں کی ننانوے فیصد تعداد صرف مردوں کی ہوتی ہے۔ پانچ سال تک یہی فلم دیکھی جاتی رہی اور لوگ پھر اس طرح کی فحاشی اور عریانی کے عادی ہو گئے۔ اس کے بعد 1920ء میں تو جیسے بند ٹوٹ گیا۔ اور آج تقریباً ایک صدی کے بعد انسان کی ہوس، حرص اور طلب اس قدر بڑھی کہ جانور سے اختلاط، رشتوں کا عدم احترام جیسے موضوعات ان فلموں کا حصہ بن گئے۔

مین اسٹریم میڈیا کا یہ کمال ہے کہ وہ آہستہ آہستہ آپ کو تھوڑی سی فحاشی پر عادی کرتا ہے۔ آج سے دس سال پہلے جس لباس میں کرینہ یا قطرینہ آئٹم گانے پر رقص کرتی تھیں وہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ لوگ بچوں کے سامنے اسے فاسٹ فاورڈ کر دیتے تھے۔ لیکن آج وہ عین خبروں کے بیچ میں دکھایا جاتا ہے اور کسی کو حیرانی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس ’’مولوی‘‘ کی آنکھوں میں جنس بھری ہوئی ہے۔

ہمیں تو کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ اسے کہتے ہیں Desensitize ہونا۔ یعنی آپ کی حساسیت ختم ہو جاتی ہے لیکن جو جانتے ہیں کہ اگر یہ کھیل شروع ہو گیا تو پھر یہ کہیں نہیں رکے گا۔ عریانیت اسے اپنی آخری منزل تک لے جائے گی۔ اسی لیے وہ اسے آغاز میں ہی روکنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ گاڑی اس پٹڑی پر نہ چڑھے ورنہ بہت تیز رفتار ہو جائے گی۔ شرم و حیاء سے عریانی و فحاشی کا سفر بہت تیز بلکہ تیز تریں ہوتا ہے۔ شرم و حیاء ختم ہوئی تو سید الانبیاء کی حدیث کے مصداق ’’جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے‘‘ (صحیح بخاری)

کرٹیسی ایکسپریس: اصل سورس میں پڑھنے کے لئے ایکسپریس پر کلک کریں

شرم و حیا سے فحاشی و عریانی تک : اوریا مقبول جان (پہلی قسط)

دنیا کا ہر معاشرہ اپنی پسند و ناپسند کا ایک معیار رکھتا ہے اور اس معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ اس کی حساسیت معاشرے کے افراد کی علامت بن جاتی ہے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ایک جذبہ ایسا ہے جو اس قدر حساس ہے کہ نفسیات دان اسے ا نسانی جبلت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ یہ جذبہ حیاء، شرم، حجاب اور ستر ہے۔

تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس جذبے نے نشوونما پائی اور پھر یہ انسان اور جانور کے درمیان فرق کی بنیادی علامت بن گیا۔ حضرت آدم اور حوا کا قصہ دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہے۔ اس قصے کے مطابق دونوں جنت میں لباس میں موجود تھے۔ لیکن جب ان سے وہ غلطی سرزد ہوئی تو ان کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے ستر چھپانے لگے۔ یعنی حیا وہ پہلا عمل تھا جو انسانی جبلت میں شامل ہوا۔ بشریات Anthropology ایک ایسا علم ہے جو انسان کی ارتقائی منازل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔

آج بھی ایمزان کے جنگلوں میں ابتدائی تہذیب کی وہ بستیاں موجود ہیں۔ مارگریٹ میڈ (Margaret Mead) وہ خاتون ہے جو ان معدوم ہوتی بستیوں کا مطالعہ کرنے والی اہم ترین ماہر بشریات سمجھی جاتی ہے، بلکہ یہ علم بہت حد تک اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اس نے جنگلوں، بیابانوں اور دور دراز پہاڑی وادیوں میں ایسے انسانی معاشروں کو دریافت کیا جن تک جدید تہذیب کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔ اس کے نزدیک بھی ان معاشروں میں جہاں صرف بنیادی جبلتیں یعنی کھانا، سونا اور جنس اہم تھیں، وہاں بھی مکمل عریانی کہیں موجود نہ تھی بلکہ ستر اور حیا کا ایک معیار ضرور موجود تھا خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ قرآن اس تہذیبی ارتقاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتا ہے ’’انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا اور ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والابن جائے یا کفر کرنے والا‘‘۔(الدھر 1,2,3)۔ راستہ دراصل ہدایت کا راستہ ہے جو دنیا کو آسمانی مذاہب نے دکھایا۔ یہیں سے انسانی تہذیب کا ارتقاء شروع ہوا اور ہم نے سیکھا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، ایمانداری اور دھوکہ و فریب کسے کہتے ہیں، عہد کی پاسداری اور بدعہدی کیا ہوتی ہے۔

ان اقدار سے بھی بالاتر ایک خاندانی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب نے استوار کیں۔ ماں کا تقدس کیا ہے، بہن اور بھائی کے رشتے کی کیا حدود و قیود ہیں، میاں بیوی کس اہم ذمے داری یعنی ایک لاچار و مجبور بچے کی پرورش، تربیت اور دیکھ بھال کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور اس ذمے داری کو نباہنے کے لیے ان میں جذبہ محبت اور مادری و پدری جذبات کو جبلت کا حصہ بنا دیا گیا۔ انسان کو ان تمام رشتوں کی تعظیم اور احترام سکھانے کے ساتھ ساتھ ہر مذہب نے ایک جذبے کو تہذیب کا حصہ بتایا اور وہ تھا ستر، شرم، حیاء، حجاب اور پاکیزگی۔ اس بنیادی جذبے کی بنیاد پر انسانی رشتوں کی عمارت تعمیر ہوئی۔ انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے شرم و حیا اور ستر و حجاب کے تصور کو تار تار کر کے عریانیت و فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو زوال نے اس کے دروازے پر دستک دے دی، روم، یونان، مصر، بابل اور ہندوستان کی تہذیبوں کے زوال کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو ان کی تہہ میں عریانی و فحاشی کی وہ حیران کن لہر موجزن نظر آئے گی جو ان تہذیبوں میں سرائیت کر گئی اور پھر وہ کبھی بام عروج کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔

فحاشی و عریانی سے وابستہ ایک حساسیت سے جو دنیا کے ہر معاشرے میں پا ئی جاتی ہے، دنیا کے ہر معاشرے نے اس کے لیے عورت اور مرد دونوں کے لیے معیارات مقرر کیئے ہیں۔ یہ حساسیت اس قدر شدید اور ذہنوں میں جبلت کی طرح راسخ ہے کہ اچانک ذرا سی بے لباسی بھی معیوب اور بری محسوس ہونے لگتی ہے۔ بے لباس یاستر نمایاں ہوتے ہی وہ شخص شرم و حیا سے ڈوب جاتا ہے اور اس کے چہرے پر اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ انسان میں صرف چند جذبے ایسے ہیں جن کا اظہار چہروں پر شدت سے ہوتا ہے۔ دکھ میں ہم روتے ہیں، خوشی میں ہم ہنستے ہیں، غصے میں ہم لال پیلے ہو جاتے ہیں اور شرم میں ہمارے چہرے پر ایک شرمندگی والی لالی پھیل جاتی ہے جسے انگریزی میں blush کرنا کہتے ہیں۔

یہ شرمندگی سے پھیلنے والی سرخی یا لالی ہی ہے جسے حیا و شرم کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی تہذیب کے ارتقاء کا حسن ہے۔ دنیا کے کسی بھی جانور میں شرم و حیا اور ستر و حجاب کے جذبات شامل نہیں ہوتے۔ دکھ خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے جانوروں میں ملتے ہیں لیکن عریانی و فحاشی کے معاملے میں جانور جذبوں سے عاری ہیں۔ حیاء، شرم ا ور ستر و حجاب صرف اور صرف انسانی جذبہ ہے اور یہ جانور اور ا نسان میں فرق کرتا ہے اور انسانی تہذیب کی سب سے بڑی علامت ہے ۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کو سابقہ انبیاء کرام کی جو باتیں ملی ہیں ان میں اہم یہ ہے کہ جب تم میں حیا ختم ہو جائے تو پھر تم جو چاہو کرو۔‘‘ (سنن ابن داؤد)۔ پھر فرمایا: ’’ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف رہا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔

(سنن ابن ماجہ) ۔ خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔ یعنی فساد کی جڑ بھی حیا کی عدم موجودگی کو بتایا۔ خوبصورتی اور بدصورتی کے معیارات بتاتے ہوئے کہا ’’بے حیائی جس چیز میں ہو گی اسے عیب دار بنا دے گی جب کہ حیا جس چیز میں ہو گی اسے خوبصورت بنا دے گی۔ (سنن اترمذی)

حیا و شرم کے مقابل فحاشی و عریانی ہوتی ہے۔ حیا و شرم ایک ایسی معاشرتی صفت ہے جس کے ساتھ ایک حساسیت وابستہ ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں فحاشی و عریانی ایک دم نہیں پھیلتی۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے معاشرتی رد عمل اس قدر شدید ہوتا ہے کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ لوگوں کو آہستہ آہستہ فحاشی کی جانب مائل کیا جاتا ہے۔ نفسیات دان جدید دنیا میں ایک بہت بڑے طریق علاج کو اختیار کیے ہوئے ہیں جسے Desensatization یعنی حساسیت کو کم کرنا کہتے ہیں۔ ہر شخص جو کسی بھی معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو اس کو مختلف طریقوں اور مشقوں سے آہستہ سے اس کے قریب کیا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ بالکل حساسیت سے عاری ہو جاتا ہے۔

مثلاً کوئی شخص خرگوشوں سے ڈرتا ہے تو پہلے ایک شیشے کے پیچھے نقلی خرگوش رکھ کر اس کے سامنے اس کا پسندیدہ کھانا رکھا جاتاہے، وہ آہستہ آہستہ ان کی موجودگی میں کھانے لگتا ہے، پھر نقلی کی جگہ اصلی خرگوش لائے جاتے ہیں۔ مدتوں اس طرح اسے عادی کیا جاتا ہے، پھر شیشہ ہٹا دیا جاتا ہے اور بالآخر وہ خرگوشوں کو چھونے بھی لگ جاتا ہے۔ فحاشی و عریانی بھی دو طرح کے خوف کی وجہ سے انسان اختیار نہیں کرتا، ایک معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی خوف کہ ایسا کرنے سے وہ ذلیل و رسوا ہو جائے گا اور دوسرا مذاہب کا بنایا ہوا آخرت کا خوف، یہ دونوں خوف انسان کو فحاشی و عریانی سے دور رکھتے ہیں اور حیا، شرم، ستر، حجاب سے محبت سکھاتے ہیں۔

جدید تہذیب کے میڈیا نے نفسیات کے اس بنیادی طریق کار کو فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کے لیے اس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے کہ ہر معاشرے میں درجہ بدرجہ، آہستہ آہستہ فحاشی و عریانی کو عام کیا اور پھر معاشروں پر ایک ایسا وقت آیا کہ انھیں اسے دیکھنے، یا اختیار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی، حیا و شرم کو کبھی بھی ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اسے آہستہ آہستہ بے شرمی و بے حیائی کے مظاہر سے موت تک پہنچایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی تہذیبوں کا زوال ایسے ہی آیا۔ جدید تہذیب میں ابتدائی فحاشی و عریانی کے وہ مظاہر جو عام پبلک کے لیے تھے وہ 1871ء میں شروع ہوئے۔ اس سے پہلے آرٹسٹ عریاں تصاویر بھی بناتے تھے اور مجسمے بھی لیکن ان کو دیکھنے والوں کی تعداد محدود ہوتی تھی اور عریاں تصاویر و مجسمے بھی اتنے زیادہ نہ تھے۔ لیکن جدید تہذیب کی عریانیت سب سے پہلے کاروباری اور اشتہاری مقاصد کے لیے اختیار کی گئی۔

1871ء میں امریکی کمپنی نے اپنے تمباکو کے پیکٹوں میں کچھ ٹریڈنگ کارڈ رکھے جن پر نیم عریاں جنسی مشاغل کی تصویریں تھیں اور اس طرح 1890ء میں یہ امریکا کا سب سے زیادہ بکنے والا سگریٹ برانڈ بن گیا۔ اس سے پہلے کسی سیلون، شربت اور تمباکو کے اشتہارات لکڑی میں مجسمہ نما کاٹے جاتے تھے اور لکڑی میں جسم کے ابھار ایسے دکھائے جاتے تھے کہ خاتون کے اوپر کا حصہ عریاں محسوس ہو۔ یہ مجسمے دکانوں کے باہر آویزاں ہوتے تھے چونکہ یہ ایک مجسمہ قسم کی چیز تھی اس لیے لوگوں نے اسے اس طرح عریانیت کے طور پر نہ لیا لیکن ان لکڑی کے مجسمہ نما اشتہاروں کی وجہ سے عریانیت کے بارے میں حساسیت کم ہو گئی اور جب سگریٹ کے اس پیک میں نیم عریاں تصاویر آئیں تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی۔ 1911ء کے آس پاس صابن کی کھپت کو بڑھانے کے لیے اسی عریانیت کا سہارا لیا گیا جس کے لوگ ابھی تھوڑے تھوڑے عادی ہو گئے تھے

۔ ایک امریکی کمپنی نےFacial soap کے اشتہار میں ایک خوبصورت خاتون کی گردن سے تھوڑا سا نیچے لباس کو ڈھلکایا، اس کی گردن کے پیچھے سے ایک آدمی کا آدھا جھانکتا ہوا سر دکھایا، ایسے جیسے وہ جسم کی خوشبو سونگھ رہا ہو اور اس عورت کو ہاتھوں کی نرماہٹ کے ساتھ مرد کو پکڑے ہوئے دکھایا گیا اور اشتہار پر لکھا تھا ’’A Skin You Love to Touch‘‘ (ایسی جلد جسے آپ چھونا پسند کریں)۔ بس پھر کیا تھا، لوگ جن کی فحاشی کے بارے میں حساسیت پہلے سے کم ہو گئی تھی انھوں نے اسے اتنا پسند کیا کہ ووڈبری کے خواتین کے حسن کے مراکز Beauty Bars دوبارہ کھل گئے۔ عورتیں اپنی جلد کی نرماہٹ میں مگن ہو گئیں اور مردوں کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ کتنے بڑے معاشرتی بندھن کو توڑ چکے ہیں۔

(جاری ہے)  

کرٹیسی ایکسپریس: اصل سورس میں پڑھنے کے لئے ایکسپریس پر کلک کریں

سرکس کے مسخرے۔۔۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور تو اپنے ان ہی آقاؤں کے نقش قدم پر چل رہے : اوریا مقبول جان

کرٹیسی ایکسپریس

سرکس کے کرداروں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ماہر اور مشاق فنکار جو رسے پر چلتا ہے، قلابازیاں لگاتا ہے، دونوں ہاتھوں سے کس قدر مہارت سے گیندوں کو اچھالتا ہے، غرض طرح طرح کے ماہرانہ کرتب دکھا کر داد وصول کرتا ہے اور تالیوں کی گونج میں رخصت ہوتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد عجیب و غریب لباس، پھندنے والی ٹوپی اور چہرے پر چونے سے نقش و نگار بنائے ہوئے ایک مسخرہ داخل ہوتا ہے اور وہی سارے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسی پکڑ کر جھولنے لگتا ہے تو دھڑام سے زمین پر گر جاتا ہے، گیند اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور قلابازیاں وہ اس مضحکہ خیز انداز میں لگاتا ہے کہ پورا پنڈال ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہوتا ہے۔

ایک اپنی مہارت کی داد وصول کرتا ہے تو دوسرا اپنے مسخراپن کی۔ دونوں کی اپنی اپنی دنیا اور اپنی اپنی حیثیت ہے۔ لیکن سرکس کے مسخرے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔ اس میں وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں۔ اس لیے وہ ہیرو والی داد نہیں چاہتا بلکہ مسخرے والی داد پر خوش ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب ترکی میں طیب اردگان کی حکومت کے خلاف فوج کے ایک مختصر ٹولے نے بغاوت کی کوشش کی تو ترکی کے اس مقبول صدر کی اپیل پر ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے، ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، سپاہیوں کے سامنے دیوار بن گئے۔ ایسے میں پاکستان کے کچھ سیاست دان اور عظیم دانشور بھی اپنے ’’عظیم الشان‘‘ تبصرے کرنے لگے کہ اب عوام جمہوریت کا خود دفاع کریں گے۔ طالع آزما قوتوں کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہے۔

اب ڈکٹیٹر شپ کے زمانے گزر گئے۔ گزشتہ دو دنوں سے پاکستانی قوم ان کے منہ سے یہ تبصرے سنتی اور ویسے ہی مسکراتی رہی جیسے مسخرے کے کرتبوں پر مسکراتی ہے۔ کیونکہ سرکس میں مسخرہ بھی اپنی ناکام پرفارمنس پر ہیرو کی طرح ہاتھ اٹھا کر داد کا طالب ہوتا ہے۔ کیا ان رہنماؤں نے ٹھنڈے دل کے ساتھ دامن میں جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اور طیب اردگان میں کیا فرق ہے۔ اس کی بیرون ملک سے ایک ٹیلیفون پر دی گئی کال پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ان کے ہر دفعہ جانے کے بعد لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ دانشوروں کا تو کیا کہنا، ان کی خبروں، ٹویٹر کے ٹویٹ اور فیس بک کے تبصروں میں صبح تک یہ خواہش امڈ امڈ کر سامنے آ رہی تھی کہ فوجی بغاوت کامیاب ہو جائے گی اور ترکی کا اسلامی چہرہ سکیولرازم اور لبرل ازم میں بدل جائے۔ یہ دانشور، تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار پوری رات پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے میڈیا پر چھائے رہے۔

پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور تو اپنے ان ہی آقاؤں کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ بس اب طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کا سورج غروب ہو گیا۔ ذرا مغرب کے میڈیا اور اس کے کرتا دھرتا افراد کی ناکام خواہشوں اور حسرتوں کا تماشا ملاحظہ کریں۔ برطانیہ کا مشہور اخبار ٹیلی گراف خبر لگاتا ہے۔ The Army Sees Itself as the Guardian of Turkey’s Secular Consitution”

(فوج اپنے آپ کو ترکی کے سکیولر آئین کی محافظ سمجھتی ہے) یعنی پارلیمنٹ نہیں فوج آئین کی محافظ ہے۔ جب فوجی دستے بغاوت کے لیے نکلے تو نیویارک ٹائمز نے تو فوج کی جانب عوام کی ہمدردیاں موڑنے کے لیے یہ خبر لگائی ”A Look at Erdogan, Controvesial Rule in Turky” (ترکی میں اردگان کے متنازعہ اقتدار پر ایک نظر)۔ اس دوران دنیا بھر کے اخبار اردگان کے بارے میں افواہیں پھیلاتے رہے۔ ڈیلی بیٹ نے ایک اپ ڈیٹ لگائی ”Erdogan Reportedly Denied Assylum in Germany, Now Headed to London” (جرمنی نے اردگان کو پناہ دینے سے انکار کر دیا، اب وہ لندن جا رہے ہیں) Vox نیوز تو کھل کر بولنے لگا۔ ”Erdogan Is Clearly a Threat to Turkish Democracy and Secularism” (اردگان واضح طور پر ترکی کی جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے ایک خطرہ ہے)۔انتہائی معتبر جانا جانے والا فوکس (FOX) نیوز اپنے تبصرہ نگاروں میں کرنل رالف پیٹرز (Ralf Peters) کو لے کر آیا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2005ء میں پینٹاگان کے جرنل میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں پوری مسلم دنیا کا ایک نیا نقشہ پیش کیا تھا۔ اس کرنل صاحب نے اردگان کے خلاف ایک تفصیلی تبصرہ کیا اور کہا

”If The Coup Succeeds, Islamists Loose and We Win”

(اگر بغاوت کامیاب ہو جاتی ہے تو اسلامسٹ ہار جائیں گے اور ہم جیت جائیں گے)۔ بددیانتی کا ’’شاندار‘‘ مظاہرہ روس کے اخبار سپتنک (Sputnik) نے کیا۔ عوام کی تصویریں لگا کر کیپشن لگایا ”Images From The Ground in Turkey Show People Celebrating Coup” (بغاوت پر خوشی منانے والے عوام کی تصاویر) پاکستان کے سیکولر میڈیا نے بھی اپنے مغربی آقاؤں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی خواہش کو خبر بنایا۔ ایک انگریزی معاصر نے آٹھ کالمی سرخی لگائی ”ERDO-GONE” اس سرخی میں چھپی ان کی حسرت کتنی واضح نظر آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے سیکولر اور لبرل بلاگزر تو پوری رات تڑپتے رہے کہ کسی طریقے سے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کی خوش کن خبر سنیں۔ لیکن ناکامی کے بعد جمہوریت کی بقا اور فتح کا نعرہ لگانے لگے۔

کیا یہ جمہوریت کی فتح ہے یا طیب اردگان کے ان نظریات کی فتح ہے جو وہ اپنے ملک کو بتدریج اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جسے جنگ عظیم اول اور خلافت کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک نے سیکولر ڈھانچے میں تبدیل کر دیا تھا۔ قدیم ترکی لباس ضبط کر لیے گئے تھے اور پینٹ کوٹ اور سکرٹ اور بلاؤز کو لباس بنا دیا گیا۔ عربی رسم الخط کی جگہ رومن رسم الخط نافذ کیا گیا۔

یہاں تک کہ اذان بھی ترکی میں دی جانے لگی۔ ظلم اس قدر کہ پارلیمنٹ میں ارکان نے عربی میں اذان دینا شروع کی تو انھیں گولیوں سے بھوننا شروع کیا گیا اور سات ارکان نے جام شہادت نوش کر کے اذان مکمل کی۔ ان اقدامات کے خلاف جلال بابار اور عدنان مندریس کی حکومت آئی تو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے وزیراعظم عدنان مندریس کو پھانسی دے دی اور صدر جلال بابار کو عمر قید۔ سو سالہ سیکولرازم اور امریکی مدد پر چلنے والی سیکولر فوج کی موجودگی میں طیب اردگان لوگوں کے دلوں میں چھپی اسلام سے محبت کو سامنے لے آیا اور اب پورا مغرب اسے ایک ڈراؤنا خواب سمجھتا ہے ۔انھیں اندازہ ہے کہ اردگان کے یہ چند اقدامات معاشرے کو وہاں لے جائیں گے جہاں شریعت معاشرے کا قانون بن جائے گی۔

وہ معاشرہ جہاں مساجد ویران ہو چکی تھیں، طیب اردگان نے نہ صرف انھیں آباد کیا بلکہ صرف دو سالوں 2002ء اور 2003ء میں سترہ ہزار نئی مساجد تعمیر کروائیں۔ حجاب جس پر پابندی لگائی گئی تھی، یہ پابندی اٹھالی گئی اور نومبر 2015ء میں عالمی میڈیا میں یہ خبر بن گئی کہ ایک جج نے حجاب پہن کر کیس سنا۔ اتاترک نے تمام مدارس ختم کر دیے تھے اور ان کی جگہ’’امام ہاتپ‘‘ اسکول قائم کیے گئے جہاں اسلام کی مسخ شدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اردگان نے پہلے ان کا نصاب بدلا اور اب ان اسکولوں میں جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا، دس لاکھ طالب علموں نے داخلہ لیا۔ جب وہ برسراقتدار آیا تو ان اسکولوں میں صرف 65 ہزار طلبہ تھے۔ تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور قرآن پاک کی عربی میں تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔ اتاترک کے زمانے سے ایک پابندی عائد تھی کہ بارہ سال سے پہلے آپ قرآن پاک کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔

اردگان نے یہ پابندی اٹھا لی۔ سکیولر لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ ایک بچے کو بارہ سال تک سیکولر نظریات پر پختہ کر لیا جائے اور پھر بے شک وہ قرآن پڑھے، اسے تنقیدی نظر سے ہی دیکھے گا۔ ایک مغرب میں رچے بسے معاشرے میں 2013ء میں اردگان نے اسکول اور مسجد کے سو میٹر کے اردگرد شراب بیچنے اور اسکے اشتہار لگانے پر پابندی عائد کر دی۔ ’’زراعت اسلامی بینک‘‘ کو سودی بینکوں پر ترجیح دی۔ اگرچہ کہ یہ تمام اقدامات بنیادی نوعیت کے ہیں اور معاشرے کو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر نہیں ڈھال پاتے لیکن اس کے باوجود بھی خوف کا یہ عالم ہے کہ اردگان کے یہی اقدامات اگر جاری رہے تو ایک دن ترک معاشرے سے ایسی لہر ضرور اٹھ سکتی ہے جو شریعت کو نافذ کر کے دکھا دے گی اور شریعت اور خلافت یہ دو لفظ تو مغرب اور سیکولر لبرل طبقات کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ لوگ جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اردگان کے اسلامی اقدامات کے حق میں نکلے۔

اس کے لیے کہ اس سے پہلے کئی بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا لوگ مزے سے سوتے رہے‘ یہ اسلامی اقدار جو ان کی روح میں رچی بسی ہیں۔دنیا بھر کے سیکولر لبرل ساری رات بغاوت کی کامیابی خواہش میں تڑپتے رہے۔

اگر یہ کامیاب ہو جاتی تو پھر ان کے تبصرے دیکھنے کے قابل ہوتے۔ کیسے فوجی بغاوت کی حمایت میں رطب اللسان ہوجاتے۔اب ناکام ہوگئے ہیں تو جمہوریت اور سسٹم کے بقا کے لیے عوام کی جدوجہد کا نعرہ لگا دیا اور پھر ان کی ہمنوائی میں پاکستان کی جمہوری سیاست کے بددیانت، کرپٹ اور چورسیاستدان بھی میدان میں آگئے جنھوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اور اپنی جائیدادیں بنائیں۔ ترک عوام نے سرکس کے ہیرو کی طرح اپنی فنکاری دکھائی اور داد وصول کی۔ لیکن اب یہ ویسی ہی داد وصول کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا کیا جائے لوگ ان کی خواہشوں اور گفتگو پر ویسے ہی مسکراتے ہیں جیسے سرکس کے مسخرے کی حرکتوں پر مسکراتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مسخرہ اپنے مسخرے پن پر داد چاہتا ہے اور وصول کرتا ہے۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ حرکتیں مسخرے والی کریں اور داد ہیرو کی وصول کریں۔

اصل اشاعت ایکسپریس 

منگل، 12 جولائی، 2016

سیکولر کہلانے والے بھارت کے پاس اب کیا دلیل ہے: کالم نگار | نصرت جاوید

انتہاء پسندی کے زہر سے ذہنوں کو گمراہ کرنے اور دلوں میں کدورتیں بھرنے کے لئے جو زہر استعمال کیا جاتا ہے اس کے لئے بنیادی جوہر عموماََ ’’تاریخ‘‘ ہی سے کشید کیا جاتا ہے۔ کوئی ٹھوس حوالے موجود نہ ہوں تو ’’تاریخ‘‘ گھڑلینے میں بھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔

مثال کے طورپر ’’افغان جہاد‘‘ کی تب وتاب کو رواںرکھنے کے لئے یہ فقرہ کئی دہائیوں تک کسی وظیفے کی طرح دہرایا جاتا رہا کہ افغانستان دُنیا کا وہ واحد ’’ملک‘‘ ہے جو کبھی غیروں کے قبضے میں نہیں رہا۔ اسی لئے سکندر اعظم سے لے کر امریکی سامراج تک ہر Empireکا قبرستان ثابت ہوا۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے اچھے بھلے ’’عالموں‘‘ نے بھی یہ حقیقت یاد رکھنے کی زحمت گوارانہ کی کہ ’’افغانستان نام کا ملک تو ایجاد ہی 1747ء میں ہوا تھا۔ اس سے قبل کابل ہو قندھار ہو یا پھر ان دونوں شہروںسے کہیں زیادہ تاریخی اور تخلیقی ہرات، ہمیشہ دہلی یا اصفہانمیں بیٹھے شہنشاہوں کے ’’صوبے‘‘ ہوا کرتے تھے۔

کابل، مغل سلطنت کا ایک صوبائی مرکز تھا۔ ظہیر الدین بابر کو اس شہر سے عشق تھا۔ اسی لئے مرنے کے بعد اس نے یہاں دفن ہونے کی وصیت لکھوائی تھی۔ اس وصیت پر عمل ہوا۔ اگرچہ اس کی موت کے بعد دہلی کے تخت پر بیٹھنے والے ہمایوں کو اصفہان جاکر پناہ لینا پڑی کیونکہ دہلی پر ایک ’’افغان ‘‘شیرشاہ سوری قابض ہوگیا تھا۔اس ’’افغان‘‘ شہنشاہ نے مگرجرنیلی سڑک بنانے کا آغاز پشاور سے کیا تھا کابل سے نہیں ۔ کیونکہ وہاں اس وقت بھی بابر کا بیٹا -کامران-جس کے نام پر بنی بارہ دری آج بھی لاہور کے دریائے راوی میں نظر آتی ہے- تخت نشین تھا۔ افغانستان کی ’’تاریخ‘‘ مگر میرے آج کے کالم کا اصل موضوع نہیں۔

دل میرا کشمیر میں اٹکا ہوا ہے۔جس کی اپنی ایک ٹھوس تاریخ ہے جو کئی ہزار برس پرانی ہے۔ اس کی حیران کن ’’تاریخ‘‘ سے بھی مگر انتہاء پسندوں نے اپنی اپنی پسند کے مخصوص حصے چن لئے ہیں اور ان میں سے زہریلا جوہر کشید کرتے ہوئے ذہنوں کو گمراہ کرنے دلوں میں کدورتیں بھرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

1947ء میں ’’برٹش انڈیا‘‘ کو دو ملکوں میں تقسیم کرکے انگریز یہاں سے چلا گیا تھا تو دلی سرکار نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کو جائزثابت کرنے کے لئے مختلف النوع دلائل ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مرتے دم تک اپنے ’’کشمیری پنڈت‘‘ ہونے پر نازاں نہرو کو ’’سیکولر‘‘ ہونے کا دعویٰ تھا۔کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ثابت کرنے کے لئے لہذا وہ مذہبی کے بجائے جدید سیاسی دلائل گھڑتا چلاگیا۔ اس ضمن میں اس کو مزید آسانیاں اس لئے بھی میسر ہوگئیں کیونکہ اس کے دور میں کشمیری قوم پرستی کی واحد علامت سمجھے جانے والے شیخ عبداللہ نے پاکستان میں شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ خواہش شیخ عبداللہ کی اصل میں اگرچہ یہ رہی کہ کسی نہ کسی طرح ریاستِ جموںوکشمیر کا وہ جداگانہ اور کافی حد تک خودمختار ڈھانچہ برقرار رہ سکے جو ڈوگرہ مہاراجوں نے قائم کیا تھا۔اس ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی تمنا میں کسی زمانے میں ’’شیر کشمیر‘‘ کہلاتا شیخ عبداللہ دراصل عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر اس خطے کا مہاراجہ ہی بننا چاہتا تھا۔

تاریخ مگر بڑی ظالم ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ ایک جگہ رُک نہیں سکتی۔ ثبات اس میں صرف تغیر کو نصیب ہوتا ہے۔ عوامی مقبولیت کے زعم میں ’’تاریخ‘‘ کو ایک خاص ڈھانچے اورنظام تک محدود رکھنے کی کوششیں کرتا شیخ عبداللہ اسی لئے ہیرو سے زیرو ہوکر مرا۔ شیخ عبداللہ بھی لیکن میرے آج کے کالم کا اصل موضوع نہیں۔

مجھے حیرانی اور پریشانی ہے تو اس بات پر کہ خود کو ’’سیکولر‘‘ کہلانے والی دلی سرکار جسے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت -آباد ی کے حوالے سے - کہلوانے کا شوق بھی ہے، وادیٔ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے وحشت وبربریت کی انتہائوں کو چھورہی ہے۔ نہتے اور معصوم نوجوانوں کو محض فوجی اور نیم فوجی دستوں کی قوت سے اپنا غلام بنائے رکھنے کے لئے مگر اس کے پاس اب کوئی ’’سیکولر‘‘ دلیل باقی نہیں رہی۔ وادیٔ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لئے دلی سرکار کے پاس اب بہانے ہیں تو وہ اس ’’تایخ‘‘ سے مستعار لئے جارہے ہیں جو کشمیر کے ہندو پنڈتوں نے اپنے دلوں اور دماغوں میں ابھی تک لبارکھی ہے۔اس تاریخ کو زندہ رکھنے کیلئے چند ٹھوس علامتیں بھی درکار تھیں۔ بدقسمتی سے امرناتھ کی صورت ایک علامت آج بھی موجود ہے۔

ہمالیہ کی چوٹیوں پر جمع ہوئی برف پگھل کر جب وادیٔ کشمیر کے دریائوں کی صورت بہنا شروع ہوجاتی ہے تو سری نگر سے کئی میل دور موجود ایک غار میں اس برف کے قطرے گرکر ایک ایسی شکل بنادیتے ہیں جو ہندوئوں کے مہادیوتائوں میں سے ایک -شیوا- سے منسوب علامت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

اسی غار تک پہنچنا بہت دشوار ہے۔ ہزاروں کلومیٹر کی چڑھائی ہے۔ راستے تنگ ہیں اور پگ ڈنڈیاں انتہائی خطرناک۔ سفر پیدل کرنا ہی زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔ خچر کی سواری اگرچہ سفر کو ذرا آسان بنادیتی ہے۔

امرناتھ کہلاتا یہ غار یقینا ہندومذہب کے حوالے سے ایک اہم ترین علامت ہے۔ اس کی ’’خبر‘‘مگر بھارت کے کئی ہندو انتہاء پسندوں تک 1990ء تک بھی نہیں پہنچی تھی۔ برطانوی سامراج نے ویسٹ انڈیزمیں اپنی نوآبادیوں میں بھارت کے یوپی اور مدھیہ پردیش کے دیہاتوں سے جوخاندان لے جاکر کاشتکاری کے لئے بسائے تھے ان میں سے ایک خاندان کے ہاں وی ایس نیپال نامی لڑکا پیدا ہوا۔لندن میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اس میں ناول نگار بننے کی لگن شدید تر ہوگئی۔ ویسٹ انڈیز سے آئے اس بھارتی نژاد نے جب انگریزی لکھی تو اس زبان کے مہا کلاکاروں کو بھی حیران کردیا۔ پھر اسی نیپال نے اپنی ’’جڑوں کی تلاش‘‘ کی خاطر بھارت یاتراکا فیصلہ کرلیا۔ بھارت پہنچ کر اسے مگر بہت مایوسی ہوئی۔ اپنی اس مایوسی کا اظہار اس نے اپنی کتاب میں کھل کر کیا۔ دلی سرکار اس کتاب سے بہت ناراض ہوئی۔ بھارت کے قبضے میں موجود وادیٔ کشمیر پہنچ کر البتہ اسے کچھ راحت ملی۔ راحت کے ان ہی ایام میں اس نے امرناتھ کا ذکر سن کر وہاں تک پہنچنے کا کشت بھی بھگتا۔

اس کی کتاب نے دلی سرکارکو چراغ پا تو ضرور کیا مگر ہندو انتہاء پسندوں کو اسی کتاب کی بدولت وادیٔ کشمیر کو ’’آریہ ورت کا اٹوٹ انگ‘‘ ثابت کرنے کے لئے امرناتھ کے آغاز کی صورت میں ایک ٹھوس حوالہ مل گیا۔بھارتی معیشت میں تھوڑی خوش حالی آئی تو نودولتیے ہندوئوں نے ’’امرناتھ یاترا‘‘کو عبادتی مشن کی صورت دے ڈالی۔ یاترا کے پھیلتے چلن نے سیاحوں کی محتاج وادیٔ کشمیر کو چند معاشی فوائد بھی یقینا مہیا کئے مگر اب یہی یاترا کشمیر ہی کے ماحولیاتی حسن کو تباہ کرنے کے ساتھ ہی ساتھ وہاں کے نوجوانوں کے لئے عذاب بھی بننا شروع ہوگئی ہے۔

اس یاترا کے شروع ہونے کے سیزن میں یاتریوں کے ’’تحفظ کو یقینی بنانے‘‘ کے لئے قابض افواج مزید وحشی ہوجاتی ہیں۔ برہان وانی کو ’’حزب المجاہدین کا خوفناک کمانڈر‘‘ ٹھہراکر اسی بہانے ماردیا گیا ہے ۔ اس کی وحشیانہ ہلاکت نے وادی کے لوگوں میں جو غصہ ابھارا اس پر قابو پانے کے لئے قابض افواج ابھی تک 30سے زیادہ محض نعرے لگاتے اور پتھر پھینکتے نوجوانوں کو شہید کرچکی ہے۔ تلخی اتنی بے قابو ہوچکی ہے کہ وادیٔ کشمیر کی نام نہاد ’’منتخب‘‘ وزیر اعلیٰ، محبوب مفتی، حریت کانفرنس میں جمع ’’علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں‘‘ سے نوجوانوں کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دینے کی استدعا کررہی ہے۔ تاریخ مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ایک جگہ تھم کر نہیں رہ جاتی۔ ثبات یہاں صرف تغیر ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ حریت کانفرنس، میری ناقص رائے میں کسی زمانے میں ’’شیر کشمیر‘‘ کہلاتے شیخ عبداللہ کی طرح کشمیر کی جدید ترین نسل کواب غیر متعلق اور بے اثر نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے کشمیر کی اس جدید ترین نسل کو ہم پاکستانی بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر اب بھی وانی جیسے نوجوانوں کے جنازے میں پاکستانی جھنڈے لہراتے نمودار ہوتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت 

پیر، 9 مئی، 2016

چور کو پڑ گئے مور۔ اوریا مقبول جان

چور کو پڑ گئے مور۔  اوریا مقبول جان 


کیا یہ سب ہنگامہ جو پوری دنیا میں پانامہ لیکس کے بعد برپا ہوا ہے‘ یہ سب ایک اچانک رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ جرمنی کے ایک اخبار کے پاس خفیہ معلومات کا ایک پلندہ آتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں مانگی جاتی۔ اخبار ان معلومات کو تصدیق کے لیے ایک بہت بڑی این جی او ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلزم‘‘ کو بھیج دیتا ہے۔ حیرت ہے کہ پھر بھی معاوضہ طلب نہیں کیا جاتا اور دنیا بھر کے صحافی جو اس این جی او کے ممبران ہیں ان معلومات کی تصدیق میں لگ جاتے ہیں۔

ایک سال کی محنت اور تگ و دو کے بعد پونے دو کروڑ خفیہ دستاویز تصدیق کے مراحل سے گزرتی ہیں اور پھر ایک دن اچانک دھماکا ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں تھرتھرا جاتی ہیں۔ ایک فہرست ان لوگوں کی خفیہ آمدنی کی سامنے آتی ہے جو ان ملکوں میں عزت دار سمجھے جاتے ہیں۔ سیاست دان‘ تاجر‘ صنعتکار‘ ان سب کی خفیہ دولت اور ٹیکس چوری‘ رشوت‘ کرپشن اور جرم سے کمائے ہوئے سرمائے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ یہ سب نہ تو اتنا اچانک ہوا ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا خیراتی کام تھا کہ سب کا سب مفت ہو گیا۔

اس سب کو کثیر سرمائے کی فراہمی سے ممکن بنایا گیا اور ایسا کرنے کے پیچھے ایک مقصد تھا۔ یہ کوئی سیاسی شعبدہ بازی کاکھیل تماشا نہیں بلکہ دو اور دو چار کی طرح بولتی ہوئی معاشی ضروریات پر مبنی حقیقت ہے اور اسے اس وقت دنیا بھر کے بڑے بڑے سرمایہ دار ایسے جانتے ہیں جیسے آسمان پر چمکتا سورج۔ انھیں معلوم ہے کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے‘ کون کروا رہا ہے‘ کس نے سرمایہ فراہم کیا اور آخر کار ان لوگوں کے خفیہ سرمائے کے ساتھ کیا کیا جانے والا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے تجارتی مراکز میں بیٹھے سرمایہ داروں کے منہ پر صرف ایک ہی نام ہے جو اس سارے کام کے لیے سرمایہ بھی فراہم کر رہا ہے اور اس نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اسے ایک عالمی ایجنڈا بھی بنوا لیا ہے۔

اس شخص کے بارے میں یہ حقیقت دنیا کے بڑے بڑے کاروباری حلقے جانتے ہیں کہ یہ جب چاہے اور جس وقت چاہے کسی بھی ملک کی کرنسی کی قیمت گرا سکتا ہے‘ بینک دیوالیہ کر سکتا ہے‘ حکومتیں گرا سکتا ہے۔ اس شخص کا نام جارج سوروز George Soros ہے‘ اور آج کل یہ نام ہر خوفزدہ سرمایہ دار کی زبان پر ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے بینک آف انگلینڈ کو 1992ء میں تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا اور برطانیہ کو اپنی کرنسی کی قیمت گھٹانا پڑی‘ یورپی یونین کے ایکسچینج ریٹ سے علیحدہ ہونا پڑا اور امریکی ڈالر کی گود میں بیٹھنا پڑا۔

12 اگست 1930ء کو ہنگری کے یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے اس شخص کا نام شوارٹز گاؤرگی Schwartz Gyorgy رکھا گیا۔ چونکہ اس نام سے وہ ایک خالص یہودی کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا‘ اس لیے امریکا میں اس نے جارج سوروز کے نام سے اپنی شناخت بنائی۔ وہ دنیا کے تیس بڑے سرمایہ داروں میں شامل ہے۔ یہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہے جو کھلم کھلا صہیونی عالمی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں اور ایک عالمی یہودی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اور اپنی مذہبی پیش گوئیوں پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسا ایک دن ہو کر رہے گا۔ سوروز دنیا کا سب سے بڑا این جی او ڈونر ہے۔ا س کی سو روز فاؤنڈیشن نے گیارہ ارب ڈالر اب تک دنیا کی مختلف انسانی حقوق‘ حقوق نسواں اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو دیے ہیں۔

مشرقی یورپ میں کیمونزم کے خلاف تحریکوں کو سرمایہ اسی نے فراہم کیا۔ امریکی صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں اس کا سرمایہ شامل ہوتا ہے۔ میڈیا کی خفیہ فنڈنگ اس کا معمول ہے اور اسی لیے میڈیا اسے ایک عظیم مخیر‘ جمہوریت کا مدد گار اور عالمی امن کا خواہاں بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی معاشی پیش گوئیوں کے سلسلے میں مشہور ہے اور اس کی کتابیں‘ مضامین اور لیکچر دنیا بھر میں پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ اس نے 2008ء کے معاشی بحران کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ بلبلہ پھٹنے والا ہے اور ابھی اس نے جنوری 2016ء میں سری لنکا کے اکنامک فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جلد ایک بہت بڑا معاشی طوفان آنے والا ہے جو دنیا بھر کی کرنسیوں کو تہہ و بالا کر دے گا۔ کاروباری حلقے اس کی بات کو جسقدر سنجیدہ لیتے ہیں اسقدر وہ کسی اسٹاک مارکیٹ کے احوال کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک کٹر صہیونی ہے جس کو سی آئی اے کی خفیہ مدد حاصل ہے‘ اسی لیے وہ اپنے ہر معرکے میں کامیاب لوٹتا ہے۔ پانامہ لیکس کے پیچھے اسی کا سرمایہ ہے اور اسی نے اس تحقیقاتی کنسورشیم کو فنڈ فراہم کیے تا کہ ایسے ناقابل تردید ثبوت فراہم کر دیے جائیں کہ دنیا بھر کے یہ ’’عزت دار‘ چور اور بددیانت سیاست دان اور سرمایہ دار قابو میں آ جائیں اور پھر ان کا تمام سرمایہ ان سے چھین لیا جائے۔

سی آئی اے ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے اور سوروز کیوں اس کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے‘ یہ اسقدر سیدھی سی بات ہے کہ وال اسٹریٹ سے لے کر لندن اور پیرس بلکہ بیجنگ تک ہر بڑے سرمایہ دار کے دماغ میں آ چکی ہے۔ یہ دو اور دو چار کی طرح واضح معاشی حقیقت ہے۔ امریکا کا قرضہ 19 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے‘ جب کہ یورپی یونین یعنی یورو زون کے قرضے 16 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سات سال سے یورپین سینٹرل بینک صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ روس کے سیاسی منظرنامے پر آنے‘ چین کے معاشی طاقت بن جانے اور پھر ایران کے ساتھ مل کر ڈالر کے بجائے دیگر کرنسیوں میں خرید و فروخت کے رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔

یوں وہ محفوظ (SURPLUS) سرمایہ جو آجکل ڈالروں کی شکل میں ہے کسی اور جانب منتقل ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تیل کی کھپت کم ہو رہی ہے اس لیے پٹرو ڈالر یعنی تیل کی ڈالر میں خریدوفروخت سے جو امریکی ڈالر کی ساکھ ہے وہ ختم ہوتی جائے گی کیونکہ دیگر ذرایع پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ جو امریکی بالادستی کو صہیونی ایجنڈے سے منسلک کرتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے کہ ایک دن امریکی معاشی برتری ختم ہو جائے۔ ایسے میں صرف ایک سرمایہ ہے جو اس صورت حال میں امریکی ساکھ کو بچایا جا سکتا ہے۔ یہ ہے‘ مختلف ملکوں کے بددیانت حکمرانوں اور چور سرمایہ داروں کا 105 ہزار ارب ڈالر سرمایہ جوآف شور کمپنیوں کی صورت پڑا ہوا ہے۔

اس میں ہر طرح کے جرم کا پیسہ بھی شامل ہے۔ اس میں منشیات کے دھندے‘ اسلحے کی فروخت اور حکمرانوں کی کرپشن کا پیسہ سب شامل ہے۔ امریکا میں ہر سال 160.7 ارب ڈالر کی منشیات فروخت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں جرم سے کمائے جانے والے پیسے کی تعداد 2003ء کے اندازے کے مطابق 48 ارب پاؤنڈ تھی۔ سوئٹزرلینڈ کی فنانس منسٹری نے 1998ء میں بتایا کہ ہر سال وہاں 500 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

ڈو جونز (Dow-Jones) جو سب سے بڑا معاشی تجزیہ کار چینل اور وال اسٹریٹ کی آنکھ سمجھا جاتا ہے اس کے نزدیک دنیا بھر کی جی ڈی پی کا 5 فیصد سرمایہ جرم سے کمایا جاتا ہے اور اس کی تعداد دو ہزار سے تین ہزار ارب ڈالر تک ہے۔ یہ سب سرمایہ آف شور کمپنیوں کے ذریعہ سفید کیا جاتا ہے اور پھر ان چور اور بددیانت حکمرانوں اور تاجروں کو کاروبار کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ اس سے ان ملکوں کی تجارت اور صنعت میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں سرمایہ کاری بڑھتی ہے۔

ان چوروں کو اسی لیے اجازت دی گئی تھی لیکن اب تو معاملہ اس سودی معاشی نظام کو بچانے اور امریکی ڈالر کی حکومت کا آ گیا ہے۔ اس لیے پانامہ لیکس نے ایک چھوٹا سا آغاز کیا ہے۔ یہ امریکی کانگریس میں ایک قانون کا مسودہ تیار ہو چکا جس کے تحت قومی مفاد میں لاء فرموں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان سب چوروں کی جائیدادوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ایسا ہی قانون پیروی یورپی یونین کے ملک منظور کریں گے اور پھر ان معلومات پر تحقیقات کا آغاز ہو گا۔ تمام اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔ یہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ رکھنے والے بے وقوف حکمران اور سرمایہ دار جانتے نہیں کہ ان کی نوے فیصد دولت کا امریکی حکمرانوں کو بخوبی علم ہے کیونکہ وہ اپنا تمام کاروبار ڈالروں میں کرتے رہے ہیں۔

اور ان کا سرمایہ امریکی نظام معیشت کی نظر میں ہوتا ہے۔ یہ سب صرف تین چار سال کے عرصے میں ہو جائے گا۔ تقریباً 105 ہزار ارب ڈالر امریکا اور یورپ کی قسمت بدل دے گا اور چور حکمران اور جرم سے سرمایہ کمانے والے سرمایہ دار اپنی دولت کو اپنے سامنے ان ملکوں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھتے رہ جائیں گے۔ آج تک کسی ڈکٹیٹر کی لوٹی ہوئی دولت کو ان ملکوں نے اسے خرچ نہیں کرنے دیا‘ مارکوس‘ پنوشے اور شاہ آف ایران مثالیں ہیں۔ پیرس کے بیچوں بیچ ایک بہت بلند عمارت ہے جو شاہ آف ایران کی ملکیت ہے۔

انقلاب آیا تو اسے فرانس کی حکومت نے قبضے میں لے لیا اور پوچھا بتاؤ یہ سرمایہ کہاں سے لائے۔ جواب ندارد۔ دور کھڑے حسرت سے اسے دیکھتے رہ گئے۔ یہی حال چند سالوں بعد ان لوگوں کا ہونے والا ہے جن کا نام پانامہ لیکس میں ہے۔ ایک دن ہائیڈ پارک میں کھڑی شریف فیملی ان فلیٹوں کو حسرت سے دیکھ رہی ہو گی کہ یہ کبھی ہمارے تھے۔ کیونکہ وہاں یہ ثابت کرنا کہ سرمایہ کہاں سے آیا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ وہاں ٹی او آر وہ طاقتیں بنائیں گی جو اس ساری گیم پر اربوں ڈالر خرچ کر چکی ہے۔

بشکریہ ایکسپریس اخبار

مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں